ہمارا مخالف کے عمل کے مساوی شدید یا اس سےفروتر ردعمل کا رجحان دراصل ہمارے مخالف کا سب سے مؤثر ہتھیار اور ہمارے خلاف ایک نئے اور شدید تر اقدام کی بنیاد فراہم کرتاہے۔ ہمارے ردعمل کا توازن اور تول طے کرتا ہے کہ ہم اپنے نظریاتی محاذ کے میدان میں برسر پیکار ہونگے یا شدت کی رو میں غیر متوازن ہو کر مخالف کی چال اور حصار میں پھنس چکے ہیں۔
پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخانہ اقدامات کا ایک بڑا مقصد مسلمانوں میں ہیجان کو ہوا دے کر عدم برداشت اور انتہاپسندی پر مبنی جارحانہ ردعمل کی تشکیل کرنا ہے۔ تاکہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دہشتگردی سے جوڑ کر اسلام کی نظریاتی اساس کو منہدم کیا جا سکے۔
اسلام کے مخالفین جب فکری نظریاتی علمی اور اعتقادی بنیاد پر اسلام کا راستہ نہ روک سکے تو اسلام کو داغدار کرنےکیلئے اسکے متشدد ہونے اور فقط تلوار کے زور پر پھیلنے کا پریپوگنڈا شروع کر دیا گیا۔ ہزار سال سے زائد عرصہ یہ الزام بار بار اور مختلف طریقوں سے لگائےجاتے رہے لیکن کسی بھی دور میں اسے قابل قبول بیانئے کے طور پر پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ پندرھویں صدی ہجری اور اکیسویں صدی عیسوی کا آغاز اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ صدیوں پر محیط اسلام کے خلاف اس بے بنیاد بیانیئے کیلئے نئے ہزارئیے میں بنیادیں پیدا کر لی گئی ہیں۔
اسلامی دہشت گردی دنیا کیلئے اب کوئی اجنبی اصطلاح نہیں ہے۔
اس بیانیے کی سچائی دکھانے کے لئے ضرورت اس امر کی تھی کہ بہت بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو انتہا پسندی، جارحیت اور دہشتگردی میں ملوث دکھایا جائے ، اس انتہائی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اس پیمانے پر اشتعال کے پیدا کرنے کی ضرورت تھی کہ جسکے جواب میں مسلمان غیض و غضب اور دہشتگردی کی تصویر نظر آئیں۔
کوئی بھی بیانیہ تشکیل، تشہیر اور ترویج کے مراحل سے گزر کر قبولیت تک پہنچتا ہے۔
اسلامی دہشت گردی کے اس ظالمانہ بیانیے کو قابل قبول بنانے کیلئے پوری دنیا کے امن کو داو پر لگانا پڑا ۔ بڑے بڑے شہر تباہ کرنے پڑے، ملکوں کے ملک برباد کردئے گئے، لاکھوں انسان قتل کئے گئے ، ملینز کو معذور لاچار اور بے گھر کر دیا گیا، ان گنت معصوم بچوں کو اس مقصد کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے یتیمی اور محرومی کے پرخار ریگزاروں میں دربدر کردیا گیا۔ ہر بڑی بد امنی کو مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ جوڑا گیا۔
اسلام کو متشدد دین ثابت کرنے کیلئے ضروری تھا عام مسلمان، مذہبی نمائندے اور اسلامی وضع قطع کے افراد انتہاپسندانہ اور متشدد طرزعمل کے حامل نظر آئیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے انکے جذبات میں اشتعال پیدا کرنا ضروری تھا، سو اسکے لئے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کے باقاعدہ اور منظم سلسلے کا آغاز کیا گیا۔ جب اسکے نتائج توقع سے بھی بہتر نکلے تو اسے بنیادی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
حالیہ قرآن جلاو تحریکیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخانہ اقدامات بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح تخلیق کر کے دنیا پر اسلام کا خوف مسلط کیا گیا اور اس سے نپٹنے کے لئے لا محدود مالی وسائل ، عالمی اثرورسوخ اور دنیا بھر میں موثر ذرائع ابلاغ کی طاقت کو یکجا کر دیا گیا۔
ان سب نے مل کر منصوبہ سازوں کے ہدف کو اس حد تک حاصل کر لیا ہے کہ آج نئے تشکیل کردہ مخصوص منظر نامے میں اسلام انتہاپسندی کا مذہب اور مسلمان دہشت گرد ہے۔ دکھ اس بات کا بھی ہے کہ دنیا دین امن اسلام اور پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کیا ظلم روا رکھے ہوئے ہے مگر حقیقی دکھ اس بات کہ ہے کہ ان کے عمل پر ہمارا منتشر اور غیر متوازن ردعمل ہی ہے جو ہمارے خلاف گواہی ہے۔ ہم میں سے ہر فرد کے پاس اس کے عمل کا جواز موجود ہوتا ہے۔ ہر گالی اور ہر گولی بھی فاعل کے پاس اپنا جواز رکھتی ہے۔ اجتماعی اور قومی معاملات میں اہم چیز ہمارا عمل نہیں بلکہ اسکا نتیجہ ہوتا ہے۔ اسلئے ہمارے ہر عمل کی ساخت ان نتائج کی معاون ہونی چاہئے جو ہمارا مقصود ہوں۔ ہمارے عمل (ردعمل) کی بنیاد دوسروں کا عمل نہیں بلکہ ہمارے اپنے اخلاق، نظریات اور مقاصد پر مبنی ہونی چاہئے۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو لوگوں نے گالیاں دیں گندگی پھینکی پتھر مارے سماجی مقاطعہ کر دیا ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رد عمل میں کہیں گالی گندگی اور پتھر نظر نہیں آتے بلکہ ابتلا و فتن میں بھی وہی عظیم اخلاق ہیں جو امن اور سکون کے حالات میں دکھائی دیتے ہیں ۔
ہمارا ردعمل اخلاق، نظم، جرآت، طاقت، توازن اور وقار کا مظہر ہونا چاہئے ۔