بانی ترکیہ جمہوریہ غازی مصطفی کمال اتاترک بارے پھیلائے گئے پراپیگنڈے کا جواب
پراپیگنڈا کیا گیا کہ’ اتاترک کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی گئی مطلب کہ اتاترک لا دین تھا۔’
تحریر: طاہرے گونیش
آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ پروپیگنڈا کہاں سے شروع ہوا؟
قادر مصر اوعلو نامی ایک کانسپریسی تھیورسٹ ، اور خبطی مصنف نے یہ خبر پھیلائی کہ اتاترک کی نمازہ جنازہ صرف ان کی بہن مقبولہ خانم کو تسلی دینے کے لئے انھیں چپ کروانے کے لئے پڑھائی گئی۔ یہ وہ مصنف ہے جوکہتا ہے کہ شیکسپیئر کا اصل نام شیخ پیر تھا اور وہ مسلمان ہو چکا تھا۔ اور یہ کہ داس کیپٹل نامی کتاب کارل مارکس کو جن اور بھوت پریت نے لکھوائی تھی۔ موصوف اتاترک کے سخت مخالفین میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے اپنے دعویے کو سچ ثابت کرنے کے لئے فخر الدین الطائے کی یاد داشتوں کا سہارا لیا ہے۔ فخر الدین الطائے کے بارے میں آپ کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ ترک فوجی آفیسر تھے اور انھوں نے ترکی کی جنگ آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ترک فوج کا ٹینک الطائے دراصل انھی کے نام پر ہے۔
خیر، قادر مصر اوعلو کو جب فخرالدین الطائے کی یادداشتوں سے خاطر خواہ ثبوت نہ مل سکے تو پھر انھوں نے خود ہی قیاس کرکے لکھا کہ فخرالدین الطائے رقم طراز ہیں کہ:
‘ مقبولہ خانم، اتاترک کی بہن، نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ ‘میرا بھائی مسلمان تھا۔ اس کی نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھا رہے تم لوگ؟’
ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے اس وقت کے محکمہ اوقاف کے جنرل منیجر شرافت دین یالت کایا اس وقت ہمارے ساتھ تھے۔ میں نے کہا کہ جناب ،آپ جائیں آگے امامت کریں اور ایک نماز پڑھائیں بس۔ انھوں نے امامت کی۔ ‘
یہ تو ہوئی فخرالدین الطائے کی بات اب مجھے جو یاد آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت معمولی درجے کے سپاہی جواد سلیم پاشا کو میں نے سن 1970 میں ان کے ایرین کوئے والے گھر میں سنا وہ کہہ رہے تھے کہ ‘مقبولہ خانم آگئیں اور چیخ و پکار کرنے لگیں کہ میرا بھائی تو مسلمان تھا اس کی نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھا رہے ہو؟ یہ سب کیا ہے عیسائی طور طریقے وغیرہ؟ میں نے بھی شرافت دین یالت کایا سے کہا کہ ‘ ارے بھئی مولوی صاحب تم مولوی ہو ،جاؤ آگے امامت کرواؤ، نماز پڑھاؤ ہمیں!’
انھوں نے کہا ٹھیک ہے صفیں بنا لو پیچھے۔ ہم ان کے پیچھے صف بنا کر کھڑے ہوگئے۔ اس خاتون (مقبولہ خانم) کو خود کو ہلاک کرنے کے ڈر سے ہم نے کچا پکا کام کر لیا ہے۔ شش، خاموش رہو۔ ‘
قادر مصر اوعلو ، ترکیہ جمہوریہ کے بانی رہنما اور صدر مصطفی کمال اتاترک کے جنازے کو ان کی بہن مقبولہ خانم کے مجبور کرنے، ان کو خاموش کرانے کے لئے ، ایک بنا وضو کے ایسی ہی نماز قائم کرنے کا دعوٰی کر رہے ہیں۔
ذرا سوچیں، کیا ایسا ممکن ہے؟ ہر گز نہیں۔ اتاترک کی آخری رسومات ادا کرنا ایک سنجیدہ کام تھا اور اس کو ایک منظم طریقے اور اہمیت، عزت و احترام و مشاورت سے انجام پانا تھا۔
صرف ان کی نماز جنازہ پڑھانے کا ہی نہیں ان کا جنازہ اٹھانےکا کام بھی نہایت توجہ اور منظم طور سے کیا گیا ۔
اتاترک کی نمازہ جنازہ بعینہ دیگر جنازوں کی طرح پوری توجہ سے پڑھانے پر غور و فکر شروع ہوئی، ماہرین کی آراء لی گئیں اور اتاترک کی نمازہ جنازہ 19 نومبر 1938 کو 8 بج کر 10 منٹ پر استنبول کے دولما باغیچہ سرائے/ محل میں ادا کی گئی۔
اتاترک کی وفات کی خبر عوام تک 10 نومبر 1938 کو بعد از ظہر حکومت کی رسمی اطلاع کے ذریعے پہنچائی گئی۔ اس خبر کو سنتے ہی استنبول کے غمزدہ باسی گلیوں میں امڈ آئے اور دولما باغیچہ سرائے پر حملہ آور ہوئے۔ دولما باغیچہ کے اطراف کی سڑکیں کھچاکھچ بھری ہوئی تھیں۔ اس ہجوم میں دھکم پیل کی وجہ سے 11 افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔
حشر جیسا ہجوم تھا۔ عزیز نعشی کہتے ہیں کہ اتاترک کے جسد خاکی کو جب انقرہ منتقل کیا جا رہا تھا تو راستے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے۔ جیسا کہ تصاویر سے ظاہر ہے کہ اتاترک کے نماز جنازہ میں شرکت کے لئے کافی بڑی تعداد میں لوگ امڈ آئے تھے اس لئے یہ ضروری تھا کہ نماز جنازہ کے دوران سیکورٹی کا کوئی مسئلہ نہ ہو۔ اس لئے اتاترک کی نماز جنازہ کسی مسجد میں پڑھانا سیکورٹی کا کافی بڑا مسئلہ ہو سکتا تھا۔اور حکومت اس بات سے پریشان ہوگئی تھی کیونکہ مسجد میں اتنے لوگوں کے نہ سمانے سے وہ واقف تھے۔ نماز جنازہ کی سیکورٹی کا انتظام سنبھالنے والے فوجی آفیسر فخر الدین الطائے ، نماز جنازہ کہاں پر اور کن طور طریقوں کو مد نظر رکھ کر ادا کی جائے ان سب کی مشاورت کے لئے خاص طور پر اس وقت کے وزیر اعظم جلال بایار سے ملے۔ بایار نے اپنی معلومات کے مطابق کہا کہ ‘جہاں تک مجھے علم ہے یہ نماز فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے اور یہ ضروری نہیں کہ صرف مسجد ہی میں پڑھائی جائے۔ ‘
جلال بایار مقبولہ خانم سے بھی ملے اور ان کو یقین دہانی کرواتے ہوئے بولے: ‘ ہماری روایات، ہماری اقدار کے عین مطابق آخری رسومات اور جنازہ ہوگا۔ آپ بے فکر رہیں۔’
اس کے ساتھ ساتھ ادارہ ء تحقیق اسلامی کے ڈائریکٹر پروفیسر مہمت شرافت الدین یالت کایا کے سامنے معاملہ رکھا گیا۔ یالت کایا نے کہا کہ ‘شرعی لحاظ سے ایسی کوئی پابندی نہیں کہ صرف مسجد کے اندر ہی جنازہ ادا ہو۔ مگر آپ لوگ مذہبی امور کے صدر مہمت رفعت بوریکچی سے ایک بار معلوم کر لیں۔’
رفعت بوریکچی سے جب نماز جنازہ کے بارے سوال
ہوا تو انھوں نے کہا۔ ‘ ان کی نماز جنازہ، خود ان کے صاف کئے گئے وطن کے کسی بھی کونے میں ادا کی جا سکتی ہے۔!’
19 نومبر 1938 کے دن 8 بج کر 10 منٹ پر دولما باغیچہ سرائے کے مرکزی ہال کے بیچ میں بڑے فانوس کے نیچے دو میزیں بچھا کر ان پر تابوت رکھ کر نماز جنازہ پڑھائی گئی۔ امامت شرافت الدین یالت کایا نے کی اور مؤذن کا فریضہ حافظ یاشار اور حافظ اسماعیل نے ادا کیا۔
ماخذ : کتاب
‘Hurafeler
Atatürk’e yönelik karapropaganda’
یعنی باطل تصورات: اتاترک بارے سیاہ پروپیگنڈا
Page 293-301
کتاب کا مصنف : Ümit Doğan