fbpx
کالم

اردو زبان کو قومی شناختی کارڈ جاری کریں / سنیہ زہرہ

تیرہ سالہ بچی کی اردو زبان کی اہمیت پر لکھی گئی شاندار تحریر

 

اردو زبان کو قومی شناختی کارڈ جاری کریں 

اردو زبان ہماری پہچان اور ہمارا ثقافتی ورثہ ہے ۔ اس زبان کا ایک ایک لفظ ہمارے ماضی کی عکاسی کرتا ہے اور ہمیں اپنی تاریخ نہیں بھولنے دیتا ۔ اردو میں موجود عربی زبان کے الفاظ ہمیں محمد بن قاسم کی فتح سندھ کی یاد دلاتے ہیں تو ترکی کے الفاظ ترک سلاطین کے عظیم الشان دور حکومت کی یاد تازہ کرتے ہیں ۔ فارسی زبان کے الفاظ ہمیں محمود غزنوی کا دور حکومت یاد دلاتے ہیں جس میں اس خطے میں اسلامی تہذیب کے نقوش گہرے ہوئے جب کہ ہندی اور سنسکرت کے الفاظ اس خطے کی قدیم تہذیب و ثقافت یاد دلاتے ہیں۔ اس گلدستے کے یہ سب پھول اپنی اپنی منفرد خوشبو اور خوبصورتی رکھتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں تقریباً 170 ملین افراد یہ زبان سمجھ اور بول سکتے ہیں ۔ لیکن دور حاضر میں انگریزی زبان کی طرف بڑھتا ہوا رجحان اس کی اہمیت پر بری طرح اثر انداز ہو رہا ہے ۔اسی طرح ہندی ڈرامے اردو کے قواعد وضوابط پر بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔
انگریزی زبان کی بے انتہاء مقبولیت اور سرکاری سطح پر اس کو دی جانے والی اہمیت کی بنا پر اردو کو نچلے اور متوسط طبقے کی زبان سمجھا جانے لگا ہے، اردو بولنے والوں کو ان پڑھ خیال کیا جاتا ہے ۔ جب کہ انگریزی کو پڑھے لکھے اور مہذب طبقے کی زبان سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے بیشتر تعلیمی اداروں میں اردو زبان بولنا منع ہے اور اردو بولنے والے طلباء کی خاصی تذلیل کی جاتی ہے۔ تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے انگریزی زبان میں ماہر ہوں۔ پڑھے لکھے گھرانوں میں عموماً گھر میں بات چیت بھی انگریزی زبان میں کی جاتی ہے تاکہ بچے انگریزی زبان سیکھیں اور وہ معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں ۔
کسی بچے کو انگریزی صحیح سے نہیں آتی تو اسے کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ نہیں ملے گا لیکن اگر وہ اردو نہیں جانتا اور انگریزی میں ماہر ہے تو وہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں باآسانی داخلہ حاصل کر سکتا ہے۔ کسی بھی تعلیمی ادارے میں چلے جائیں اور امتحانات کے نتائج دیکھیں تو آپ کو تعجب ہوگا کہ سب سے برا نتیجہ ہماری قومی زبان اردو کا ہوگا۔
ہمارے ہاں نامور لوگوں کو اردو کے حروف تہجی بھی نہیں آتے، اس سے بڑھ کر اور شرم کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ہمیں اپنی قومی زبان ہی نہیں آتی؟ اگر کہیں اردو زبان بولی بھی جاتی ہے تو اس کے تلفظ اور قواعد و ضوابط کا ذرا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ ہمارے ہاں اردو پڑھانے والے اساتذہ کے اپنے تلفظ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ایک استاد بغیر کو بُغیر بولتے تھے اور ایک استانی صاحبہ حمد کو حمد پڑھاتی تھی اسی طرح خلوت جلوت کو خلوت جلوت( ل پر پیش کے ساتھ ) کہتیں۔۔ املا کی دھجیاں اڑانا تو ہمارا معمول ہے، چند دن پہلے ایک نامور شخصیت کا ٹویٹ نظر سے گزرا جس میں جناب نے بذریعہ کو بزرعیہ لکھا ہوا تھا ،ایک صاحب کے نزدیک حقیقت نہیں حکیکت اور تحقیق نہیں تحکیک ہوتا ہے ایسے ہی ایک اور نامور شخصیت نے خاطر کو خاتر لکھا ہوا تھا ۔ غرض ایسے لوگوں کی ایک نا ختم ہونے والی فہرست ہمارے پاس موجود ہے۔ ایسے ہی اگر تذکیر و تانیث کی بات کی جائے تو شاید ہی کبھی کسی کو املاء کے لیے مذکر کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے سنا ہو ۔ ایک جناب کے نزدیک خواب بڑی اور امید بڑا ہوتا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل زبان اردو سے متعلق وقوع پذیر ہونے والی ایک تقریب کی تصاویر دیکھنے کا شرف حاصل ہوا جس میں اردو زبان کی اہمیت پر ہونے والی تقریب کا عنوان بھی انگریزی میں لکھا ہوا تھا۔ میرے نانا جان بتاتے ہیں کہ ضیاء الحق کے دور میں تمام سرکاری کالجوں کو اردو زبان کی ترویج سے متعلق جو فرمان جاری ہوا وہ بھی انگریزی میں تحریر شدہ تھا ۔
اگر کسی دوسرے ملک کی کوئی نامور شخصیت عالمی سطح پر ہونے والے کسی اجلاس یا کسی تقریب میں اپنی قومی زبان میں گفتگو کرتی ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ اس نے اپنی قومی زبان کو اہمیت دی اور یاد رکھا ، لیکن اگر ہماری کوئی شخصیت ایسا کرے تو کہا جاتا ہے کہ اس نے تو پوری دنیا کے سامنے ہماری ناک کٹوا دی، اس نے ہماری عزت ہی خاک میں ملا دی۔ ہماری ایسی حرکات کی بنا پر ہماری زبان کو عالمی سطح پر وہ پذیرائی نہیں مل پائی جو اسے ملنی چاہئے تھی۔
بدقسمتی سے ہم اپنے ثقافتی ورثے کی اہمیت کو بھول چکے ہیں۔ برصغیر میں جب  ہندوؤں نے ہندی کو اردو کی جگہ دلوانے کی کوشش کی تھی تب مسلمانوں کا اس کے خلاف شدید رد عمل آیا تھا جسے ہماری قوم نہیں جانتی۔  بدقسمتی سے بہت ہی کم لوگ ہوں گے جنھیں اردو کی تاریخ کا پتہ ہو گا ہماری قوم تحریک آزادی میں اردو زبان کا کردار نہیں جانتی، اردو ہی وہ زبان ہے جس کے ذریعہ اقبال نے ہمیں خواب غفلت سے بیدار کیا جس کے ذریعے سر سید نے ہمیں دو قومی نظریے کا شعور دیا
اگر آپ کسی بھی ملک میں جائیں تو وہاں کے باشندوں کو اپنی قومی زبان کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا پائیں گے ہر ملک کے لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی قومی زبان دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان سب سے زیادہ اہمیت کی حامل زبان ہو اور ایک ہم پاکستانی ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کے بچے بچے کو انگریزی آتی ہو ہمارے سکولوں میں سے کچھ میں تو اردو پڑھائی ہی نہیں جاتی اور جن میں پڑھائی جاتی ہے تو نصاب کا اس طریقے سےرٹہ لگوایا جاتا ہے کہ طلبہ کو اردو سے نفرت ہو جاتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب شستہ اردو سیکھنے کے لیے ڈرامے دیکھے جاتے تھے مگر آج کل کے ڈراموں میں بولی جانے والی اردو سن کر جو اردو آتی ہے وہ بھی بھول جائیں اور تلفظ اچھا کرنے کے لیے خبریں سنی جاتی تھیں لیکن ہمارے اب کے صحافیوں کا تلفظ اتنا زبردست ہے کہ چناچہ کو چنا ۔۔۔چا  بولتے ہیں۔
صوبائی سطح پر صوبائی زبانوں کو قومی زبان پر ترجیح دی جاتی ہے اور لوگوں کو سیکھایا جاتا ہے کہ ان کی صوبائی / علاقائی زبان ہی ان کی اصل پہچان ہے اور سب سے زیادہ اہمیت دیے جانے کی حقدار ہے جیسے کہ سندھ میں سندھی ، پنجاب میں پنجابی اور سرائیکی اور خیبر پختونخوا میں پشتو ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی بھی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس کے باشندوں کو ان کی ثقافت سے دور کیا جائے ان کے دلوں میں اپنی ثقافت سے نفرت ڈالی جائے جیسا کہ سقوط ڈھاکہ کے وقت بنگلہ دیش کے لوگوں کے دلوں میں اردو سے نفرت ڈالی گئی تھی ۔اردو زبان کو ایک بار پھر اس طرح نظر انداز کیا جانا اور اس کو اس کا مقام نہ دیا جانا پریشان کن بات ہے اور یہ ہمارے لیے  لمحہ فکریہ ہے ۔

ہمارے نظام تعلیم میں بھی ہماری قومی زبان کو اس کا اصل مقام نہیں دیا جارہا انگریزی کو ڈگری کلاسز تک لازمی مضمون کی حیثیت حاصل ہے لیکن اردو نہیں ۔ ہمارا باقی نصاب بھی انگریزی میں ہے جبکہ دیگر ممالک میں نصاب مکمل طور پر ان کی قومی زبانوں میں ہے ۔
ضرورت اس چیز کی ہے کہ لوگوں کو اپنی قومی زبان کی اہمیت کے بارے میں بتایا جائے لوگوں کے دلوں میں میں اپنی ثقافت سے محبت ڈالی جائےاس وقت بہت سی ایسی تنظیمیں ہے جو اردو کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔1973 کے آئین میں کہا گیا تھا کہ 15سال کے اندر اندر اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے لیکن بدقسمتی سے آج تک ایسا نہ ہو سکا ۔ چاہے آپ جرمنی کو دیکھ لیں یا ترکی کو ، برطانیہ ہو جائےیا پھر فرانس، سپین ہو یا اٹلی ان تمام ممالک کی ترقی کا انحصار ان کے ہاں ان کی قومی زبان کو سرکاری سطح پر اہمیت دیے جانے میں پوشیدہ ہے ۔
آخر میں چند تجاویز پیش کرنا چاہتی ہوں جو ممکن ہے کہ اردو کی اہمیت کو بڑھانے کے لیے کارآمد ثابت ہوں ۔

1)حکومت کو چاہیے ہے کہ اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر رائج کرے ۔
2)بھارتی ڈراموں اور فلموں پر پابندی لگائی جائے ۔ اردو پرھانے والے اساتذہ کے لیے ورکشاپوں کا انعقاد کیا جائے
3)ایسے ڈرامے نشر کیے جائیں جن کے ذریعے تلفظ سیکھایا جائے ۔ بچوں کے لیے چستہ اردو میں دلچسپ اینیمیٹڈ کارٹون بنائے جائیں ۔
4)سرکاری سطح پر ہونے والی تقاریب میں زبان اردو کا استعمال کیا جائے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تقاریب میں پاکستانی نمائندے اپنی قومی زبان میں گفتگو کریں ۔
5)گریجوئیشن تک اردو کو لازمی مضمون کی حیثیت دیں اور تمام دیگر مضامین(سائینسی وغیرسائینسی ) کو اردو میں پڑھایا جائے ۔
6) سی ایس ایس کے امتحانات اردو میں کروائے جائیں۔ انگریزی زبان کسی کی قابلیت کو جانچنے کا پیمانہ نہیں ہے۔
ہمیں چاہیے ہے کے اردو کی ترویج کے لیے ہر ممکنہ کوشش کریں ۔ یہ ہماری پہچان ہے ہماری شان ہے ہماری وراثت ہے۔بقول داغ


اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے