کامیاب لوگوں کا فوبیا
ہم نے اکثر و بیشتر ایسے لوگ دیکھے ہیں جو کامیاب لوگوں سے خوامخواہ چڑتے ہیں۔ امیر اور دولت مند لوگوں سے خار کھاتے ہیں۔
اگر کسی دولت مند اور غریب کی لڑائی ہو جائے تو از خود ہمیشہ امیر بندے کو ہی غلط سمجھتے ہیں۔ گاڑی یا بائیک ٹکرا جائے تو صرف گاڑی والے کو ہی برا بھلا سناتے ہیں۔ ریڑھی یا رکشہ والا قیمتی گاڑی میں رکشہ ٹھوک دے ہمیشہ ریڑھی اور رکشے والے کو ہی مظلوم ثابت کرتے ہیں اور گاڑی والے کو مغرور اور بد تمیز گردانتے ہیں۔
ہم نے از خود فرض کر لیا ہے کہ دولت مند ہی ہمیشہ غلط ہے۔ اور تمام تر سمجھوتے اور درگزر اور خوف خدا بھی صرف اور صرف دولت مند کو ہی کرنے چاہیے اور سب کے سب اصولوں کی پاسداری بھی صرف دولت مند یا کھاتے پیتے لوگ کریں باقی غریبوں کو ہر بات کی چھوٹ ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کیونکہ ہم غریب ہیں اس لیے بد دیانتی جائز ہے جب کہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم غریب اسی لیے ہیں کہ ہم بد دیانت ہیں۔
ہم اپنے ورکرز اور ملازمین میں دیکھیں یہ جہاں دل کرئے گا وہاں کام میں آنا کانی کریں گے جب دل کرئے گا خاندان کے ہر دور و نذدیک کی فوتگیوں شادیوں میں جائیں گے ہر زرا سی بات پہ چھٹیاں کریں گے جب دل چاہے گا کام بیچ میں چھوڑ کے بھاگ جائیں گے مگر امیر لوگوں پہ یہ فرض ہے کہ وہ ان کی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود ان کو تنخواہ پوری دے کیونکہ یہ غریب آدمی ہے۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کیا غریب آدمی کو خود احساس نہیں ہے کہ وہ غریب ھے اس کو بد نیتی نہیں دیکھانی چاہیے؟ اس کو چھٹیاں نہیں کرنی چاہیں؟ اس کو بہانے نہیں بنانے چاہیے؟ اس کو کام میں ڈنڈیاں نہیں مارنی چاہیں؟اس سے اس کا روزگار خطرے میں پڑ جائے گا۔
یہاں رکشہ سواروں کو دیکھیں سڑکوں پہ رکشہ ایسے چلاتے ہیں جیسے موت کے کنوئیں میں چلا رہے ہوں بعض مرتبہ اچانک سامنے آ کے کسی بھی نئی شاندار گاڑی میں لا کے رکشہ ٹھوک دیں گے خود کپڑے جھاڑ کے ہنستے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے دوسرے کی شاندار گاڑی کی ہزاروں روپے کی لائٹس توڑیں ڈینٹ ڈالا نقصان کیا اس کا کوئی ہمدرد نہیں سارا مجمع اکھٹا ہو کہ گاڑی والے کو کہے گا جانے دو غریب آدمی ہے. کیا غریب آدمی کے لیے چھوٹ ہے کہ وہ اندھا دھن رکشہ چلائے یا بائیک چلائے ؟ کیا اس پہ کسی کے نقصان کی کوئی زمہ داری نہیں ھے؟ اور کیوں نہیں ھے؟
اگر کوئی دوست وقت کے ساتھ ترقی کر گیا کامیاب ھو گیا تو پرانے دوست لازم ہے کہ اس پہ طنز کریں گے۔ وقت بے وقت فون کریں گے۔ فون نا اٹھانے پہ اس کے بخیے ادھیڑیں گے۔ اسے پرانا وقت یاد دلائیں گے۔ اس کو مغرور گردانیں گے۔ صرف اس کیے کہ اب وہ چوک پہ آپ کے ساتھ بیٹھ کے گپیں نہیں لگاتا یا وقت بے وقت فون نہیں اٹھاتا؟کبھی آپ نے سوچا ھے کہ وہ مصروف ہو سکتا ھے یا وہ سارا دن کام کے بعد آرام کر رہا ہو سکتا ھے یا اس کا فیملی ٹائم ہو سکتا ھے۔
اگر آپ نے یہ نہیں سوچا تو اب یہ ضرور سوچیں کہ وہ اسی لیے آپ سے آگے نکلا ہے کیونکہ اس نے وقت کے ساتھ وقت کی قدر کو پہچانا ھے اپنی ترجیحات کا تعین کیا ہے۔ اس نے گپوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے انتھک محنت کی ھے۔اکثر لوگوں کو کہتے سنا جب سے فلاں کے پاس گاڑی آئی ہے فلاں بہت مغرور ہو گیا ھے فلاں تو ہمیں اپنی گاڑی میں بیٹھاتا ہی نہیں کبھی آپ نے سوچا ھے کہ کیا آپ نے کسی کہ ذاتی سواری میں اس کے ساتھ سفر کرتے ہوئے اس کی پرائیویسی کا خیال رکھا ہے سفر کے دوران اس کی ٹیلیفون کالز پہ کی گئی ڈیلز یا کوئی بھی ذاتی بات کا پاس رکھا ہے۔
اکثر لوگوں کو شکوہ ہوتا ہے فلاں اپنے گھر نہیں بلاتا فلاں ہمارے گھر نہیں آتا۔ فلاں فلاں جگہ نہیں جاتا۔ٹھیک ہے خوشی غمی میں شامل ہونا اچھی بات ہے مگر کیا آپ نے کبھی کسی کامیاب دولت مند امیر آدمی کے جوتوں میں پاوں ڈالے ہیں کبھی اس کے پاوں کے آبلے دیکھے ہیں کبھی آپ کو احساس ہو گا اس انتھک محنت کا جس کو نا موسموں کی پروا تھی نا اس کے پاس کسی تفریح کی گنجائش۔کیا کبھی کسی نے سوچا ھے کہ ایک کامیاب آدمی نے کتنی شادیوں، اور تفریحات کی قربانی دی ہے۔
کبھی کامیاب لوگوں کی روٹین دیکھی ہے وہ کتنے کتنے گھنٹے کام کرتے ہیں اور ان کی نیند کا ٹائم کتنا ہے۔ ان کی کھانے پینے کی روٹین کیا ہے اور یہ اپنے خاندان کو کتنا وقت دے پاتے ہیں اس میں بھی ہم کہتے ہیں ہمارا فون نہیں اٹھایا جبکہ فون پہ کرنی آپ نے صرف ادھر ادھر کی ھے۔اگر کسی کی دولت کا احسان کسی دوسرے پہ نہیں ہے تو کسی کی غربت کی ذمہ داری بھی کسی دوسرے کی نہیں ہے۔
بعض مرتبہ یہ خدا کی تقسیم ہے اور بے شمار مرتبہ ہر انسان کی ذاتی محنت، ہمت، استقامت اور صحیح وقت پہ ترجیحات کا تعین ہے۔آخر میں دل تو چاہتا ھے یہی جملہ لکھوں کہ "محنت کر حسد نا کر”۔مگر اس کے ساتھ یہ ضرور کہوں گی کہ کامیاب لوگوں کو سٹڈی کریں ان کے وہ اوصاف ڈھونڈیں جنہوں نے انہیں کامیابی دلائی اور خود میں وہ اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کریں۔