گلوریا جینز میں شام اور ہزار داستان
نصیر احمد ناصر صاحب کی نظم پہ تبصرہ کرنا سورج کو چراغ دکھانے جیسا ہے مگر میں چراغ دکھانے کے بجائے چاندنی کی طرح ان کی نظم کا عکس بننا چاہوں گی تاکہ سورج کی مستعار روشنی کو اپنے نظریے میں ڈھال کر پھر سے اجالا کر سکوں ـ نصیر احمد ناصر عصرِ حاضر کے وہ نظم گر ہیں جن کی نظموں کے طلسم نے وقت کو روک رکھا ہےـ
اس پختہ عمری میں بھی نصیر صاحب کی سوچ میں وہی نوخیزی ہے جو آج کے نوجوان میں ہوتی ہے ـ جب وہ گلوریا جینز میں بیٹھے کافی کے کڑوے گھونٹ خوشی خوشی حلق میں اتارتے ہوئے محبت کو زمانوں پہ محیط ایک نئے زاویے سے دیکھتے ہیں تو آج کا نوجوان جو ان کی طرح دیکھ تو نہیں سکتا لیکن ان کی اس ادا میں اپنے لیے ایک اپنائیت، ایک جادوؤئی کشش، ایک آفاقیت اور معنوی ابدیت ضرور محسوس کرتا ہے۔
یہ ماحول انہوں نے دلوں میں گھر کرنے کے لیے شاید نہ چنا ہو، محض اتفاقی ہو مگر اس ماحول میں لکھی گئی نظم "گلوریا جینز میں شام” جو ان کی کتاب "سرمئی نیند کی بازگشت” میں شامل ہے، آج کے دور کی جدید زندگی کے لیے کئی سوال چھوڑتی ہےـ وہ سوال جو خلش تو ہیں مگر لب پہ نہیں آتے ـ قاری کو اس کے ماحول میں اسی کی زبان میں صدیوں کے سفر سے آشنا کرانے کا ہنر نصیر احمد ناصر صاحب کو خوب آتا ہےـ
میں نے یہ نظم اُس ہاؤسنگ سوسائٹی میں واقع گلوریا جینز میں بیٹھ کر، جس میں یہ نصیر احمد ناصر صاحب پر وارد ہوئی ہو گی، نہیں پڑھی بلکہ وہاں سے دور افغانستان کے دارالحکومت کابل میں، جہاں میں رہتی ہوں، بیٹھ کر پڑھی لیکن اسے پڑھتے ہوئے یوں لگا جیسے زمانی اور زمینی جغرافیے سے ماورا ہو گئی ہوں اور صدیوں پرانی گمبھیرتا اور تاریخ سے خالی ادوار یہ سب میرے وجود کے گلوریا جینز میں اتر آئے ہوں۔ جیسے ماقبل اور مابعد تاریخ کی ساری تنہائی ہاتھ میں پکڑے ہوئے کافی کے مگ میں گھل مل گئی ہو۔
نظم بظاہر گلوریا جینز میں سامنے بیٹھی ساکت و صامت لڑکی (بلکہ عورت کہیں تو زیادہ مناسب ہے کیونکہ نصیر احمد ناصر صاحب کی شاعری میں عورت ایک وسیع تر معنوی اور تخلیقی استعارے کے طور پر آتی ہے) سے شروع ہوتی ہے مگر درحقیقت اس پہ ختم ہوتی ہے۔ کئی زمانوں کا سفر طے کر کے، تاریخ کھنگالتی ہوئی۔
ہر ایک زمانہ محبت کا سفیر جہاں جہاں وہ ان سے ملی۔ آفرینش کے بعد تھمے ہوئے وقت سے اس زمانے تک جب نباتات اور حیوانات اس دھرتی کی سجاوٹ تھے، آئس ایج سے ارتقائی مراحل تک جب تاریخ ابھی چلنا شروع نہیں ہوئی تھی اور پھر کھیل ہی کھیل میں تاریخ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ جس میں ایک ننھا نواسا ہے جو کھلونوں سے نہیں زمانوں سے کھیلتا ہے۔ اس میں حیرت کیا ہے؟ اس کا جواب بھی خود انہوں نے دے دیا۔
نظم پانی کی طرح رواں، لہر در لہر سفر کرتی ہے۔ نظم کسی ایک مدعا پہ منحصر نہیں رہتی، وہ دماغ کے خلیوں میں اختراع اور تخیل کی تصویر بن جاتی ہے۔ جہاں پانی پہ تیرتے گھر پڑھنے والے کو وینس لے جاتے ہیں، جہاں جیوٹو، ڈاونچی اور مائیکل اینجلو کا دور شروع ہوتا ہے، دربار سجتے ہیں اور کمیشن پہ دھڑا دھڑا معصوم کنواری مریم کی مصوری کرنے والے رینیسانس کے دور کو جِلا بخشتے ہوئے آرٹسٹ پھر دھیرے دھیرے میوزیم میں مقید ہو جاتے ہیں، خوابوں کو کیمو فلاژ ہوتے دیکھنا بھی کیسی اذیت ہے جس کے بعد دنیا اتنے حصوں میں بٹ گئ جسے دکھانے کے لیے ہاتھ کی لکیریں نا کافی ہیں ـــ
دھرتی کا سب سے کڑوا سچ جو انہوں نے اتنی آسانی سے بیان کیا جیسے اس سے پہلے وہ کہتے ہیں کہ دنیا مسکان کی طرح دو حصوں میں منقسم تھی ـ کیا آپ جانتے ہیں وہ حصے کون سے تھے جس میں نصیر صاحب نے دنیا کو دو حصوں میں منقسم کیا؟ میں بتاتی ہوں ـ وہ خشکی اور تری کے دو حصے تھے جب دھرتی پہ پانی اور خشکی کی حد بندی کے سوا کوئی حد بندی وجود میں نہیں آئی تھی ـ دنیا میں صرف قدرتی تقسیم پہ یقین رکھنے والے تو کب کے ناپید ہو گئے ہیں ـ
حدود اربعہ سے عشق کرنے والے وطن کے نغمے گا کر داد بٹورنے والوں کے لیے یہ بات کتنی جالب ہوگی، کیا خبر! مگر مجھے ذاتی طور پر جنگ زدہ شہر کی چمنیوں اور سوراخوں سے تازہ ہوا جو محسوس ہوئی وہ امید افزا لگی۔ نظم کا معنوی اور جمالیاتی آہنگ دھیرے دھیرے قاری کو اپنے سحر میں جکڑنے لگتا ہے۔ قاری زمانوں میں سفر کرتا کسی خلا نورد کی طرح تیرتا، ان سمتوں کا منتظر ہے جہاں ابھی تک حاشیے نہیں لگے۔
تبھی نصیر صاحب قاری کی انگلی تھامے اسے واپس لاتے ہوئے وہ منظر دکھاتے ہیں جہاں ایک دشت تھا اور اس دشت میں جب کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی نہیں بنی تھی، کوئی پلازہ در پلازہ سوک سینٹر نہیں تھا اور گلوریا جینز کا سائن بورڈ نہیں لگا تھا۔ شہر کے اطراف میں دیہی زندگی عروج پہ تھی، معدودے چند گھروں پہ مشتمل گاؤں کے مرد بکریاں چراتے، فصل اگاتے اور ڈگڈگی بجاتے پالتو بندر کا تماشا کرنے شہر جاتے اور حیرت سے بدلتے رنگ روپ دیکھ کر رات کھلے آسمان تلے ٹھنڈے چاند کی روشنی میں سو جاتے۔ اب شہر ان کے گاؤں کو نگل چکا ہے۔
کیا پتہ گلوریا جینز کیفے سے پہلے یہاں کس بیابان نے کیسی تنہائی کے صدمے اٹھائے ہوں گے۔ جہاں اب اجنبیت زدہ سکوت ہے وہاں کسی ٹیلے پہ بیٹھے چرواہے نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ ایک دن یہاں کوئی اور ہی جہاں آباد ہو جائے گا۔ اب وہاں ایک گنجان شہر تعمیر ہو گیا ہے، مکانوں سے جڑے مکان اور سڑکوں سے ملی سڑکیں مگر ایک دوسرے سے اجنبی لوگ ـ
جن میں بس ایک بات مشترک ہے وہ ہے ایک گھر، ایک سوک سینٹر اور ایک قبرستان۔ کسی نے یہ تک نہ جاننا چاہا کہ یہاں پہلے کیا تھا؟ کیوں تھا؟ ایک نظم گر نے لفظوں سے تراش کر جذبوں کو وہ زمانے دکھائے جنہیں دنیا کی کسی بھی زبان میں ترجمہ کر کے پڑھا جائے، اجنبیت کی چادریں چاک کر دیتے ہیں۔ نصیر احمد ناصر صاحب کی نظموں میں سب سے بڑی خاصیت ان کا آفاقی ہونا ہے۔
وہ کوزے میں بند نہیں ہوتیں، بہاؤ پہ یقین رکھتی ہیں۔ دل سے آنکھ تک، زبان سے بیان تک، ایک سرزمین سے دوسری سرزمین تک، مکان سے لامکان تک بہتی چلی جاتی ہیں۔ ایک بہتی گنگناتی ندی کی طرح جب یہ نظم اپنے ازلی منبع سے شروع ہوتی ہے تو کردار سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔ وہ کون تھے؟ محبوب اور محبوبہ؟ آدم اور حوّا ۔۔۔۔ ؟
مجھے تو ان میں بابا آدم اور امّاں حوا نظر آئے جو وقت کی مسافتیں طے ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ حوّا منہ کھولے ورطہ حیرت میں گم تھیں۔ آئس ایج سے ایک گاؤں اور گاؤں سے ایک شہر کے پوش ٹاؤن شپ کے سوِک سینٹر میں گلوریا جینز تک کے ارتقائی مراحل پہ اچانک ہونے والی عہد بہ عہد ملاقات پہ وہ حیران ہیں۔
کیا وہ ہر بار، ہر زمانے میں ایک دوسرے کو یونہی ملتے اور جدا ہوتے رہیں گے؟ کیا آفرینش سے بچھڑے ہوئے ان دو کرداروں کا کبھی دائمی وصال بھی ہو گا اور کیا وقت ایک بار پھر حیاتِ دوام میں واپس آئے گا؟
میرے لیے نظم کسی کوزہ گر کے چاک پہ رکھی مٹی جیسی ہوتی ہے۔ جِسے اپنے لفظوں سے نظم نگار فن پارے میں ڈھالتا ہے۔ کبھی چاک سے ایک کاسہ اتارا جاتا ہے ننھا منا مگر پیارا سا، کبھی مرتبان جس میں گھر گرھستی کی سوندھی خوشبو کے ساتھ کٹھاس بھی ہوتی ہے، کبھی گھڑا جو عشق کی تشنگی بجھانے کی کوشش کرتا ہے، کبھی صراحی جس میں نزاکت ہوتی ہے۔ نصیر احمد ناصرصاحب کی یہ نظم جب میں نے پڑھی تو مجھے لگا نصیر صاحب نے لفظوں کے چاک سے نظم کو گلدان کی صورت میں اتارا ہے۔
اس کا اوپری حصہ محبت کی طویل کہانی کو جامع کرتا ہوا، درمیانی حصہ زمانوں پہ محیط ایک گولائی میں اور آخری حصہ وہ اسٹینڈ ہے جس میں دو رویہ ایک قبرستان کا ذکر ہے جو دل کھینچ لیتا ہے۔ آہ انسان اتنے زمانے گزارنے والا آخر اپنی اوج پہ پہنچ کے مر جاتا ہے۔ وہ قبرستان جس کی دو رویہ قبروں کے کنارے رکھے سبز بینچ پہ بیٹھنے والے گزرے وقتوں کی یاد اور پشیمانی پہ آنسو بہاتے ہیں، اگر بتیاں جلاتے ہیں اور شیشے کے طاقچے سے صحیفے نکال کر گئے زمانے کو واپس بلاتے ہیں۔ زندگی بالآخر محبت سے شروع ہو کر محبت پہ ختم ہو جاتی ہے۔
نصیر احمد ناصر صاحب کی خاصیت ہے کہ وہ حال میں جیتے ہیں اور ماضی اور مستقبل کو بھی لمحہ ء موجود میں لے آتے ہیں۔ زمانوں سے کھلواڑ کا یہ کمال اردو نظم میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ نظموں میں انگریزی اور ہندی الفاظ کا بے ساختہ تڑکا ان کی نظموں کو مذید نکھارتا ہے اور قاری کو زبان و بیان کے نت نئے ذائقوں سے آشنا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظمیں قرطاس پہ اترتے ہی ایک آنکھ سے دوسری، ایک دل سے دوسرے، ایک علاقے سے دوسرے اور ایک زبان سے دوسری زبانوں میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ وہ ہر موڑ پہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ نظم تتلی کے پروں پہ لکھی گئی روداد ہوتی ہے۔ اسے آزاد چھوڑ دینے میں عافیت ہے ورنہ تتلی کے پر اپنے رنگ کھو دیتے ہیں۔
میرے یہ الفاظ ان کی نظم نگاری پہ بالعموم اور ” گلوریا جینز میں شام” پہ بالخصوص محض ایک قاری کے تاثرات ہیں، کوئی تنقیدی بیانیہ یا باقاعدہ تجزیاتی مضمون نہیں۔ ان کی نظموں کو سمجھنے اور پوری طرح جذب کرنے اور ان کا تنقیدی و تجزیاتی احاطہ کرنے کے لیے خود مجھے ابھی بہت سا سفر طے کرنا ہے۔
البتہ ایک بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ نصیر احمد ناصر صاحب کی دیگر کئی نظموں کی طرح یہ نظم بھی مجھے جدید عہد کی ہزار داستان لگی ہے، جو ایک ہزار ایک رات تک نہیں، زمانہ در زمانہ چلتی ہے اور چلتی رہے گی۔ نصیر صاحب کی یہ خوبصورت نظم آپ بھی ملاحظہ کریں:
گلوریا جینز میں شام
آج بہت دنوں بعد
گلوریا جینز میں کافی پیتے ہوئے
آخری سِپ کے ساتھ
شام کو بھی انڈیل لیا ہے منہ میں
معدہ چاکلیٹی تنہائی سے لبا لب ہو گیا ہے
اور تم کاغذی مَگ ہاتھ میں پکڑے
ہمیشہ کی طرح منہ کھولے، ساکت و صامت
ناگاہ ہونے والی اِس ملاقات میں
میری طرف دیکھتے ہوئے سوچ رہی ہو
کہ آفرینش سے پہلے تھما ہُوا وقت
گلوریا جینز میں کیسے آ گیا ہے
جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا
شام اِسی طرح مٹ میلی تھی
تاریخ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی
زمین پر صرف جغرافیہ تھا
پرندوں اور جانوروں کا ترتیب دیا ہُوا
اور وقت سایوں کی طرح چلتا تھا
اور تم یونہی حیران و پریشان
میری طرف دیکھ رہی تھیں
تم نے کبھی خود کو باخبر نہیں رکھا
تمہیں نہیں معلوم کہ ان دنوں
میری دنیا کتنی چھوٹی سی ہے
عالمِ نبات و حشرات کی طرح
جس میں چیونٹیوں کی قطاریں ہیں
پرندوں کے گھونسلے ہیں
لچک دار پلاسٹک کے سانپ اور کیڑے مکوڑے ہیں
اور آئس ایج کے زمانے سے کھیلنے والا
ایک ننھا نواسا ہے
اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟
سائبر ایج کے بچے
کھلونوں سے نہیں زمانوں سے کھیلتے ہیں
اور کھیل ہی کھیل میں
تاریخ کا آغاز ہو جاتا ہے
اور خاتمہ بھی ۔۔۔۔
پانی پر تیرتے مکان اور آبی شاہراہیں
اور مصوروں اور مجسموں کے شہر
آباد ہوتے اور اجڑ جاتے ہیں
بادشاہوں کی میتوں کے ساتھ
ہزاروں مصاحبین زندہ دفن کر دیے جاتے ہیں
اور عہد بہ عہد صدیاں ویران ہو جاتی ہیں
تمہیں نہیں یاد کہ دوسری بار
میں نے تمہیں دشمن سرزمینوں کے عین وسط میں دیکھا تھا
زیرِ زمین سرنگوں میں
جھک کر چلتے ہوئے اور رینگتے ہوئے
اور غاروں کے اندر بنے ہوئے گھروں میں
جہاں سوراخوں اور چمنیوں سے تازہ ہوا آتی تھی
گہری نیند میں
خوابوں کو کیمو فلاژ کیے ہوئے
اور ہونٹوں کے بیچ مسکراہٹ کی لکیر کھنچی ہوئی
جیسے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہو
اب تو دنیا اتنے ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے
کہ اسے دِکھانے کے لیے
ہاتھوں کی لکیریں بھی ناکافی ہیں
اور اِس جگہ
جہاں اب شہر آباد ہے
اور ہم بیٹھے ہوئے ہیں گلوریا جینز میں
میں نے تمہیں آخری بار دیکھا تھا
یہاں چند گھر تھے،
ایک راستہ تھا، ایک موڑ تھا، جہاں میں کھڑا تھا
بدترین شکستوں اور ہزیمتوں کے ساتھ
گلیاں سنسان اور چھتیں خالی تھیں
درختوں اور مکانوں سے دھواں اٹھ رہا تھا
اور تمہاری صرف ایک جھلک تھی
دشمن نے دلوں اور ذہنوں کے سارے رابطے جام کر دیے تھے
پہاڑوں نے ہمیں پناہ نہیں دی تھی
اور بادل بے وقت برس رہے تھے
اور آج پھر ۔۔۔۔۔ یگوں بعد
ہم مِلے ہیں گلوریا جینز میں
اور ہمیشہ کی طرح تمہیں نہیں معلوم
کہ ہم ایک ہی ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہتے ہیں
ہماری کوئی تاریخ ہے نہ جغرافیہ
بس ایک سوک سینٹر ہے
اور ایک قبرستان
اور گلوریا جینز میں
وقت تھما نہیں، روشنی کی رفتار سے سڑپ رہا ہے!!