نہیں جاوید اختر صاحب !
آپ متوازن بات نہیں کر سکے۔ ممبئی حملوں کے ساتھ ہی آپ کو سمجھوتہ ایکسپریس پر بھارت میں ہوئے حملے کا ذکر بھی کرنا چاہیے تھا۔ سری لنکن ٹیم پر حملہ اسی لاہور میں ہوا تھا جہاں آپ عزت و محبت کے جھرمٹ میں بیٹھ کر یہ ارشادات فرما رہے تھے۔ شاید آپ کو کلبھوشن اور ابھے نندن بھی بھول گئے ہوں گے!
ہمارے ملکوں کی دوطرفہ تاریخ ہے۔ کسی ایک جانب سے بات کرنا آپ ایسے فنکار کو زیبا نہیں۔ فنکار تو عوام کا مشترک سرمایہ ہوتا ہے۔ ہم نے آپ کی ویڈیوز دیکھیں۔ آپ مدلل بات کرتے ہیں۔ لاہور کے فیض امن میلے میں آپ غیرمعتدل بات کیسے کر سکتے ہیں۔ آپ نے ساحر لدھیانوی کا ذکر تو کیا، کاش ان کی نظم ” اے شریف انسانو” دل کی آنکھ سے پڑھ لیتے۔
آپ سے مخفی نہیں ہو گا کہ انتہا پسندی دونوں ملکوں کا ایک جیسا مسئلہ ہے۔ نفرت اور شدت پسندی کے مظاہر سرحد کے دونوں طرف نظر آتے ہیں۔ غربت، جہالت اور طبقاتی کشمکش بھی ایک طرح کی ہے۔ آپ ترقی پسند شاعر ہیں۔ آپ کو تو حکومتوں کے پروپیگنڈے سے اوپر اٹھ کر بات کرنی چاہیے تھی۔
کیا آپ نہیں جانتے کہ پاک و ہند کے عوام ایک دوسرے کے فنکاروں سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ آپ نے تعصب کی میزان پر کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی، نصرت فتح علی خاں اور مہدی حسن کو بھی رکھ چھوڑا!
جہاں پاکستان کے عوام نے بھارتی فنکاروں کو پیار کے تمغوں سے نوازا وہیں حکومت پاکستان نے بھی کئی بڑے سرکاری اعزازات دیے۔ عظیم اداکار دلیپ کمار کو سب سے بڑا سول ایوارڈ ” نشان پاکستان” دیا گیا۔ ہماری جانب سے مرار جی ڈیسائی ( سیاستدان) کو بھی 1988 میں یہی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ سرکاری اور غیر سرکاری اعزازات کی فہرست طویل ہے
نہیں جاوید اختر صاحب!
آپ کا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ پاکستان میں بھارتی فنکاروں کے شو نہیں ہوتے۔ بہت سے شاعر، گلوکار، اداکار پاکستان سے بے پناہ محبتیں سمیٹ کر جاتے ہیں۔
اس بات کا آپ سے بڑھ کر بھلا کس کو پتہ ہو گا!!
ایسی ہی محبتیں پاکستانی فنکاروں کو بھارتی عوام بھی دیتے ہیں تاہم آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ بھارت میں پاکستانی فنکاروں کی پرفارمنس پر پابندی کس جماعت نے لگوائی اور کون لوگ پاکستانی فنکاروں کے پروگراموں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
جاوید اختر صاحب
آپ کو خوب معلوم ہے کہ پاکستانی پیار کرنے والی قوم ہے۔ یہ آپ کو ہر بار پاکستان یاترا پر معلوم ہوتا ہو گا۔ آپ تو آپ ہیں، آپ کے لکھے اور نصرت فتح علی خاں کے گائے گیت ” آفریں آفریں” کو جتنا پیار پاکستانی عوام نے دیا ہے اسے آپ کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔
جاوید اختر صاحب
آپ سے متنازعہ اور یک طرفہ گفتگو کی توقع نہیں تھی۔ ہم پاکستانی آپ کے الفاظ سے مجروح ہوئے ہیں۔
کاش آپ دونوں طرف ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اقلیتوں پر ہونے والے مظالم، امتیازی قوانین، ریاستی جبر، مذہبی تشدد ، اسلحے کی دوڑ، سرمائے کے ارتکاز اور غریب کی حالت زار کی مساویانہ بات کرتے تو ہم سمجھتے کوئی بڑا فنکار بول رہا ہے۔ سچا فنکار عوام کا ہوتا ہے اور وہ ریاستی بیانیوں کا شکار نہیں بنتا۔
نہیں جاوید اختر صاحب! آپ کا سارا سفر ساحر لدھیانوی کی ایک نظم ” اے شریف انسانو ” تک بھی نہیں پہنچ سکا۔