fbpx
کالم

میٹرک کا رزلٹ ، منزل تو نہیں ہے / سید بدر سعید

میرا بیٹا میٹرک میں اتنے زیادہ نمبر لے تو میں اس کے لیے فکر مند ہو جاؤں گا !! اگر آپ کے بچے نے میٹرک میں کل نمبروں سے 30، 40 نمبر ہی کم لیے ہیں تو آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔آپ کے بچے کا اکیڈمک مستقبل بہت اچھا ہے

لیکن اگر آپ واقعی ایک باپ کی طرح سوچتے ہیں تو پھر آپ کے لیے انتہائی حد تک فکر مندی کا موقع ہے ۔ آپ کا بچہ محض کتابی کیڑا یا رٹا ایکسپرٹ ہے اور اس کا زندگ کی دیگر ایکٹیویٹی سے شاید اتنا گہرا تعلق نہیں ہے

میرا بیٹا اگر میٹرک میں اتنے نمبر لے کر آئے تو شاید میں ناراضی کا اظہار کروں کیونکہ میں نے اپنے کیریئر میں بہت زیادہ نمبر لیے والوں کو کلاس کے علاوہ کہیں نہیں دیکھو ۔ یہ لوگ کالج کے بعد غائب ہو جاتے ہیں ۔ ان میں سے اکثر سوشل لائف کا لطف نہیں اٹھاتے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ہمیں زندگی میں کسی ایسی کی پوزیشن پر نظر نہیں آئے جہاں سب کی ان پر نظریں ہوں ۔

اچھے نمبرز کے باوجود ان میں سے اکثر اچھے کاروباری نہیں بن پاتے ۔ یہ عملی زندگی میں ناکام ہو جاتے ہیں ۔ یہ لوگ دفاتر میں یا تو کو پروفائل رہتے ہیں یا دفتری سیاست انہیں کھا جاتی ہے کیونکہ یہ رویوں کو سمجھنے ، بروقت درست فیصلہ اور رسک لینے میں ناکام رہتے ہیں ۔ آپ کو جتنے بیوروکریٹ نظر آتے ہیں ،چند ایک کے سوا یہ وہی ہیں جو اپنی ایجوکیشنل لائف میں نہ میڈیکل کالج میں داخلہ لے پائے اور نہ ہی انجیئرننگ میں ۔ آپ کو کاروباری دنیا میں جتنے متحرک لوگ نظر آتے ہیں ان کی اکثریت اپنے ایجوکیشنل لائف میں اوسط طالب علم تھے ۔ آپ کو جتنے سیاست دان نظر آتے ہیں ان میں اسحاق ڈار اور دو چار کے سوا زیادہ تر وہی ہیں جو بہت زیادہ نمبرز لینے والوں میں شامل نہیں تھے ۔آپ کو شوبز سٹار ، ٹی وی اینکرز ، کھلاڑی ، لاکھوں کمانے والے گلوکار یہاں تک کہ ملک کے معروف فیشن ڈیزائنر ، شیف وغیرہ میں زیادہ تر بیک بنچر ملیں گے ۔

بہت زیادہ نمبرز لینے والوں کی زندگی میں ایک مخصوص سرکل چلتا ہے ۔ یہ روز صبح اٹھتے ہیں ، دفتر جاتے ہیں اور شام کو گھر آ کر سو جاتے ہیں ۔ اس کی سوشل لائف میں انہی کے کولیگ ہوتے ہیں جن سے ایک مخصوص حد میں ہی بات چیت ہوتی ہے ۔ زندگی کے جس فیز میں انسان سوشل رویے جانتا اور سیکھتا ہے اس فیز میں یہ نصابی کتب کے سوا کچھ نہیں پڑھتے ۔ یہاں تک کہ نمبرز گیم کے چکر میں یہ لٹریچر اور دیگر کتب ، فلمیں ، ڈرامے ، گیدرنگ سے کٹے رہتے ہیں ۔ ان کی زندگی میں آوارگی نہیں ہوتی ، اگر ہو تو انتہائی بے ہودہ انداز میں ڈسپلن والی آوارگی ہوتی ہے ۔ یہ زندگی کو جینے کی بجائے کیلکولیٹر بنا دیتے ہیں ۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو نمبر گیم میں آگے ہونے کے ساتھ ساتھ لائف سرکل کو بھی بہتر رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں

اب تو وہ نمبر گیم بھی نہیں رہا ۔ نجی تعلیمی ادارے بھاری فیس لیتے ہیں اس لیے کسی طالب علم کو فیل نہیں کرتے ۔ آپ کسی پرائیوٹ سکول سے جا کر پوچھ لیں کہ پچھلے چار سال میں ان کے کتنے طالب علم فیل ہوئے ۔ جواب آپ کو حیران کر دے گا ۔ اکثر نجی سکولوں میں ہی نہیں بلکہ یونیورسٹیز میں بھی ٹیچرز کو باقاعدہ حکم ہوتا
ہے کہ کسی بچے کو فیل نہیں کرنا ۔ کوئی پھر بھی فیل ہو جائے تو عموما ایک آدھ اسائنمنٹ لے کر پاس کر دیا جاتا ہے ۔

سکولوں میں خصوصا پرائمری تک کلاس کے ہر بچے کو کسی نہ کسی حوالے سے پہلا دوسرا یا تیسرا انعام دیا جاتا ہے ، ہر بچہ ہی کسی حوالے سے بیسٹ ہوتا ہے ، اور کچھ نہ ملے تو صفائی میں بیسٹ قرار دے دیا جاتا ہے کیونکہ بچہ بیسٹ ہو گا ، کوئی پلاسٹک کا کپ یا لاکٹ نما میڈل لے کر گھر جائے گا تو ہی والدین خوش ہو کر اگلی کلاس کی بھاری فیس دیتے ہیں ۔ یہ پرائیوٹ سکول مافیا کا مخصوص فامولا ہے

مجھے دکھ ہوتا ہے کہ گذشتہ ایک دہائی سے تقریبا کل نمرز لینے والے طلبا پروفیشنل لائف میں دھکے کھا رہے ہیں ۔ انہیں ملازمت تک نہیں مل پا رہی کیونکہ رٹے کے علاوہ کری ایٹیویٹی یا آئڈیاز ہی نہیں ان کے پاس ۔ سب سے زیادہ کری ایٹیویٹی اور نت نئے آئڈیاز اس بیک بنچر کے پاس سے نکلتے ہیں جو ہر روز ایک نئی شرارت سوچ کر سکول آتا تھا اور اس شرارت پر رٹے سسٹم کو فروغ دینے والے استاد کے ہاتھوں مار کھاتا تھا ۔ اپنے ارد گرد دیکھیے ، آپ کو ایسے لوگ ہی کامیاب ، خوش اور تیزی سے ترقی کرتے نظر آئیں گے ۔

ویسے آپ کے ساتھ میٹرک ، انٹر اور گریجوایشن میں ٹاپ کرنے والے پہلے 5 طلبا اس وقت کہاں اور کس پوزیشن پر ہیں ، ان کی سوشل لائف کیسی ہے ؟ کیا وہ مرنے سے پہلے بھرپور زندگی جیتے نظر آتے ہیں یا ایک محدود سرکل کے غلام بنے یوئے ہیں ؟

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے