fbpx
کالم

مرد افضل ہے، لیکن ؟ / قرۃالعین شعیب

قرۃالعین شعیب

چند دن پہلے ایک عزیز کے گھر دعوت تھی۔ میری بیٹی بریرہ جو ابھی چار سال کی ہیں انہوں نے فراک کے ساتھ ٹراؤزر پہنا ہوا تھا جس کو انہوں نے کھیلتے ہوئے پنڈلیوں تک کر لیا۔ میزبان نے میری بیٹی کو بلایا اور کھینچ کر اس کا ٹراؤزر ٹخنوں تک کر دیا۔ لیکن انہیں اپنے بیٹوں کی نیکریں دکھائی نہیں دیتیں۔ ایسا کیوں ہے کہ ایک چار سال کی بچی کا ٹراؤزر زرا سا اپر ہے تو بے حیائی ہے۔ جب کہ بچے کی گھٹنوں سے اپر تک کی نیکر میں زرا بھی بے حیائی نہیں ؟

میرے نزدیک حیا مرد و عورت دونوں کے لیے لازمی ہے۔ ان کا یہ عمل برا نہیں تھا۔ ٹھیک ہے بچوں کی تربیت بچپن سے ہی کی جانی چاہیے۔ لیکن مجھے اعتراض صرف اس بات پر ہے کہ اس تربیت میں ہم بیٹوں کو شامل کیوں نہیں کرتے۔ بیٹی کو حیا والا لباس پہننا چاہیے تو مرد کو بھی چاہیے کہ گھر میں بہنوں اور بیٹیوں کے سامنے بنیان اور جانگھیا نہ پہنے۔عورت کا چست لباس درست نہیں تو مرد کا چست لباس بھی درست نہیں ۔

ہم سارا زور بچیوں کی تربیت پر کیوں لگاتے ہیں ؟ہمارے معاشرتی رویے ایسے ہیں کہ بیٹی کو کہا جاتا ہےکہ بھائی کو چائے بنا دو ، بھائی کو پانی پلا دو ، بھائی کے کپڑے استری کر دو ، بھائی کو کھانا گرم کر دو ۔ آپ بیٹے کو یہ کیوں نہیں کہتے کہ وہ اپنا کام خود کرنا سیکھے۔ وہ اپنے لیے خود اٹھ کر پانی کیوں نہیں لے سکتا ؟ وہ اپنے کپڑے خود استری کیوں نہیں کر سکتا ؟ وہ باتھ روم سے نہا کر نکلا ہے تو تولیہ پھیلا کر کیوں نہیں رکھ سکتا ، دھونے والے کپڑے ادھر ادھر پھنکنے کی بجائے ٹوکری میں کیوں نہیں رکھ سکتا ؟۔ وہ کھانا پکانے میں بہن کی مدد کر سکتا ہے۔

وہ صفائی میں مدد کر سکتا ہے۔ وہ گھر کے دیگر کاموں میں ہاتھ بٹا سکتا ہے۔ وہ راستہ میں گری ہوئی چیز سے پھلانگ کر گزر جانے کی بجائے اس کو اس کی جگہ پر رکھ سکتا ہے۔ صبح اٹھ کر اپنا بستر سمیٹ سکتا ہے۔ چائے پی کر کپ کچن میں رکھ سکتا ہے۔ جو چیز جہاں سے لے واپس رکھ سکتا ہے۔ اس نے صرف سکول جانا ہے اور دوستوں کے ساتھ کھیلنے نکل جانا ہے ؟ اور بیٹی ؟ اس نے اگلے گھر جانا ہے اسے قدم قدم پر یہ ہی سننے کو ملتا ہے پرایا دھن ہے۔ اگلے گھر جانا ہے اس کی تربیت کریں ۔اور بیٹا ؟ اس نے بھی تو کسی کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔ ایک نئے خاندان کی تشکیل دینی ہے ۔ایک خاندان کا سربراہ بننا ہے۔ کیا اس کی تربیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی ؟

میری کزن کے ہاں بچہ کی پیدائیش ہوئی ۔ چونکہ وہ خاندان سے الگ رہتے ہیں۔ تو وہ چند دن شوہر کو ناشتہ بنا کر نہ دے سکیں۔ ان کے شوہر کہنے لگے کہ ہم تو بھوکھے دفتر جاتے ہیں۔ ہمیں تو ناشتہ ہی نہیں ملتا۔ میں نے پوچھا کہ آپ خود ناشتہ کیوں نہیں بنا سکتے ؟ تو وہ حیرت سے منہ تکنے لگے کہ جیسے کوئی انہونی ہو۔ کہ مرد بھی ناشتہ بنا سکتا ہے ؟

یہ وہ ہی تربیت ہے۔ جو گھر میں ہم مائیں کرتی ہیں۔ کہ بہن یا ماں ہی ناشتہ دے گی۔ اس بیچارے نے سیکھا ہی نہیں کہ جب کبھی ناشتہ نہ ملے تو وہ سادہ سا ناشتہ خود بھی بنا سکتا ہے۔ وہ انڈہ بریڈ کھا سکتا ہے ، وہ چائے کے ساتھ بسکٹ لے سکتا ہے ، ملک شیک بنا سکتا ہے۔ ریڈی میڈ سینکڑوں چیزیں بازار میں دستیاب ہیں ان سے مستفید ہو سکتا ہے۔ اور وہ خود بھی تو اپنے لیے ایک روٹی بنا ہی سکتا ہے . لیکن اس کی تربیت میں یہ چیزیں شامل ہی نہیں۔ اس لیے بہت سے مردوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ بیچارے کسی صورت حال کو کیسے ہیںنڈل کریں۔ صرف بیٹیوں کو نہیں بیٹوں کو بھی تربیت کی ضرورت ہے۔ بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بیٹوں کی بھی اچھی تربیت کریں۔

ہمارا ایک ہی بھائی تھا وہ ہر کام میں ہمارے ساتھ تعاون کرتا تھا۔ ہمارے والد آج بھی پچھتر سال کی عمر میں اپنے تمام کام خود کر لیتے ہیں۔ چائے وہ اپنے ہاتھ کی بنی ہی پسند کرتے ہیں۔ اپنا ناشتہ بھی بنا لیتے ہیں ۔ کچن میں برتن دھونے والے دیکھیں تو دھونے لگ جاتے ہیں ، صبح اٹھ کر بستر سمیٹنے لگتے ہیں۔ اور جب ان کو منع کریں تو کہتے ہیں ۔ کہ جب ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تمام جہانوں کے سردار ہو کر اپنے کام خود کرتے تھے ہمیں بھی کرنے چاہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک وقت میں چار ازواج تھیں۔ خدمت کے لیے فرشتے اور اصحاب ہر لمحہ تیار ہوتے تھے۔اس کے باوجود وہ بازار سے سودا لاتے ، پیوند کپڑوں کو خود لگاتے۔ جوتے گانٹھ لیتے ، صفائی کر لیتے۔ وہ تمام جہانوں کے سردار کیا مرد نہیں تھے ؟ کیا ہمارے مرد ہی افضل ہیں ؟ مرد افضل ضرور ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے زیادہ افضل نہیں۔ جب وہ خود اپنے کام کرتے تھے۔ تو ہمارے بیٹے اور مرد کیوں نہیں کر سکتے ؟

ہم اپنا اپنا بوجھ خود کیوں نہیں اٹھا سکتے ؟ کھانا گھر کے دس افراد کھاتے ہیں لیکن پکاتا کون ہے ؟ صرف ایک فرد ۔ برتن سب مل کر گندے کریں اور دھوئے صرف ایک فرد . کپڑے سب کے ہوں اور دھوئے صرف ایک فرد ۔ کیا یہ زیادتی نہیں ؟ کیا گھر کے سب فرد مل کر اپنا اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتے ؟ اصولاً ، اخلاقاً اور شرعاً سب کو اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہیے ۔جہاں تعاون ہو وہاں عزت اور محبت کی فضا قائم ہوتی ہے۔ عزت اور محبت کی فضا میں پرسکون گھرانہ تشکیل پاتا ہے۔ اور ہمارے معاشرے کو خوشگوار ماحول کی سخت ضرورت ہے۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے