ظہور نظر
آج ظہور نظر کی 41 ویں برسی ہے۔
وہ 1923 میں ساہیوال میں پیدا ہوئے، بیشتر زندگی بہاولپور میں گزاری ۔7ستمبر1981 کو وفات پائی۔
پاکستان کے شاعروں میں ظہور نظر کی رینکنگ کچھ بھی ہو، وہ ہمارے بہاولپور کے بلا شبہ سب سے بڑے شاعر تھے۔ان کا مجموعہ کلام ’ وفا کا سفر‘ ان کی وفات کے بعد خالد احمد، نجیب احمد نے شائع کیا۔ بعد میں کلیات بھی شائع ہوئی۔ ہارون آباد کے اردو کے ایک استاد پروفیسر تنویر خالق کو ظہور نظر کے فن اور شخصیت پر ان کے تحقیقی مقالے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی. تدوین کلیات ظہور نظر کے عنوان سے ثوبیہ نسیم نے بھی پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے.
ظہور نظر نے روزی روٹی کیلئے الیکٹریشن سے ٹھیکیدار تک کئی پاپڑ بیلے۔ ایک خوبصورت چائے خانہ بھی کھولا تھا جہاں نفیس اور نازک برتنوں میں بڑی مہک والی چائے ملتی تھی، اس ریستوران کا نام بھی شاعرانہ رکھا ۔۔۔ ’’ڈمپل‘‘
ظہور نظر کو سارا شہر "ماماں” (ماموں) کہتا تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ان کے کئی بھانجے تھے، حبیب اللہ پاشا، اعجاز وغیرہ سب سیاست، ادب، ثقافت کے شعبوں میں سرگرم اور یار باش قسم کے لوگ تھے۔ وہ ماماں کہتے تو ان کے سب دوست بھی ماماں کہنے لگے۔ اس طرح وہ جگت ماماں ہو گئے۔ مشاعروں میں جہاں بھی جاتے کوئی بہاولپوری آکر ملتا تو ماماں جی کہہ کر مخاطب کرتا۔ ساتھی شعرأ ان کے بھانجوں کی کثرت پر حیران ہوتے۔
ایک بار میر پور خاص جیسے دور دراز مقام پر مشاعرہ ہوا ۔ تمام بڑے شاعر مدعو تھے۔ صوفی تبسم نے کہا ’’ لے بھائی ، یہاں تمہارا کوئی بھانجا ملے تو مانیں ‘‘
اتفاق سے ظہور نظر کا سگا بھانجا، جو میڈیکل ریپریزنٹیٹو تھا ، اسی علاقے کے دورے پر تھا، پتہ چلنے پر مشاعرہ گاہ پہنچ گیا اور ’’ماماں‘‘ کہہ کر ان سے گلے ملا۔
اس پر صوفی صاحب نے پنجابی میں جو کچھ کہا، وہ تو نہیں لکھا جاسکتا۔ اس کا
نرم ترجمہ یہ ہے۔۔۔
’’ مان گئے بھئی ، تمہاری بہنوں پر تخم ریزی بہت ہوئی ہے ‘‘
چلتے چلتے یاد آیا جب میں، پنجاب یونیورسٹی میں داخل ہوا اور لاہور آنے والا تھا، انہوں نے جناب احمد ندیم قاسمی کے نام ایک تعارفی خط لکھہ کر دیا اور تاکید کی کہ ان سے ضرور ملوں ۔ وہ خط تو میں نے پہنچا دیا لیکن افسوس کہ یونیورسٹی میں کچھہ زیادہ مصروف ہو جانے کے باعث قاسمی صاحب سے بس دو چار بار ہی مل سکا۔
ماماں جی نے بہاولپور والوں کو ایسے سیکڑوں ( بلکہ شاید ہزاروں) تعارفی اور سفارشی رقعے لکھ کر دئیے ہوں گے….اور ان میں سے بیشتر موثر ہوتے تھے۔
سید کاشف رضا بتاتے ہیں کہ انہوں نے کبھی محمد خالد اختر سے پوچھا تھا کہ انہیں کون سا شاعر پسند ہے تو انہوں نے جواب دیا تھا ۔۔۔ ظہور نظر
یہ محض آزاد تلازمہ سمجھیں کہ مجھے یاد آگیا فیض صاحب سے ان کا پسندیدہ ناول پوچھا گیا تھا تو انہوں نے محمد خالد اختر کے ’’چاکیواڑہ میں وصال‘‘ کا نام لیا تھا۔
ظہور نظر فلمی دنیا میں بھی آئے. سب سے پہلے 1960 میں فلم ’سلمیٰ ‘ کے گانے لکھے۔
’کالی کالی رات میں ، بھیا برسات میں‘ باتش نے گایا
’سانوریا من بھیا رے‘ اور۔۔۔ ’ڈولیں تیرے پائوں جھولیں میرے جھمکے‘ ۔۔ نسیم بیگم نے گائے
1961 میں فلم ’’صبح کہیں شام کہیں‘‘ کے تمام 9 گانے ظہور نظر نے لکھے اور یہ کوثر پروین ، زبیدہ خانم ،ناہید نیازی اور نسیم بیگم نے گائے۔
1969 میں بننے والی ’’نیلا پربت‘‘ میں ظہور نظر کے تین گیت تھے ۔ یہ اسمأ احمد اور نور جہاں نے گائے۔
بعد میں بھی انہوں نے وقتاََ فوقتاََ فلموں کیلئے لکھا لیکن بہاول پور میں رہائش کی وجہ سے تسلسل نہ آسکا۔
بہاول پور میں ریڈیو سٹیشن بنا تو ڈرامہ انہوں نے سنبھال لیا۔ خود لکھے، صداکاروں کا انتخاب کیا، ہدایات دیں۔ خود بھی صداکاری کی ۔ اسی دوران ممتاز ناول نگار فاروق خالد کے مشہور ناول ’’سیاہ آئینے‘‘ کی قسط وار ڈرامائی تشکیل بھی کی۔
بعض رشتہ داروں کے احمدی ہونے کی وجہ سے ظہور نظر کے بارے میں بھی بعض حریف چہ مگوئیاں کرتے رہتے تھے۔ حالانکہ ظہور نظر کے مجموعے ’’ وفا کا سفر‘‘ کا آغاز ان کی ’’ نعت بخدمتِ ختم المرسلین ﷺ‘‘ سے ہوتا ہے۔
ظہور نظر کے کچھ اشعار
وہ بھی شاید رو پڑے ویران کاغذ دیکھ کر
میں نے اس کو آخری خط میں لکھا کچھہ بھی نہیں
رات بھر اک چاپ سی پھرتی رہی چاروں طرف
جان لیوا خوف تھا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں
اپنی صورت بگڑ گئی لیکن
ہم انہیں آئینہ دکھا کے رہے
بعد ترک الفت بھی یوں تو ہم جئے لیکن
وقت بے طرح بیتا عمر بے سبب گزری
برسوں سے کھڑا ہوں ہاتھ اٹھائے
تاثیر دعا کا منتظر ہوں
گھر سے اس کا بھی نکلنا ہو گیا آخر محال
میری رسوائی سے شہرت کو بہ کو اس کی بھی تھی
خود کو پانے کی طلب میں آرزو اس کی بھی تھی
میں جو مل جاتا تو اس میں آبرو اس کی بھی تھی
لٹ گیا ہے سفر میں جو کچھ تھا
پاس اپنے مکان تک بھی نہیں
نہ سو سکا ہوں نہ شب جاگ کر گزاری ہے
عجیب دن ہیں سکوں ہے نہ بے قراری ہے
پاس ہمارے آکر تم بیگانہ سے کیوں ہو
چاہو تو ہم پھر کچھ دوری پر چھوڑ آئیں تمہیں
سنتے ہیں چمکتا ہے وہ چاند اب بھی سر بام
حسرت ہے کہ بس ایک نظر دیکھ لیں ہم بھی
تنہائی نہ پوچھہ اپنی کہ ساتھ اہل جنوں کے
چلتے ہیں فقط چند قدم راہ کے خم بھی
وہ جسے سارے زمانے نے کہا میرا رقیب
میں نے اس کو ہم سفر جانا کہ تو اس کی بھی تھی
اُٹھا کے بھر دے کوئی ریت میری آنکھوں میں
کہ مُجھ کو دشت، سمندر دکھائی دیتا ہے
ﻭﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﺣﻼﻝ ﮐﯽ ﺭﻭﺯﯼ
جہاں پہ فرق حرام و حلال کوئی نہ تھا
رکھی ھے اس نے تجدید رسم وراه کی یه شرط
که دوستی نه بڑھے صرف دشمنی کم ھو
کَہا تھا کِس نے کہ ہاتھہ تھامو ہوا کا اَے بَرگِ خُشک و خَستہ
ہَوا کی مَرضی ہے اَب تو پیارے، جہاں بھی جاۓ، جِدھر بھی جائے
یہ کیا سِتم ہے کہ ہم پہ لَگتی ہے جَب بھی لَگتی ہے کوئی تُہمت
کَبھی تو اَے شہر کوئی اِلزام شہر یاروں کے سَر بھی جائے
چَلا تو ہوں آس لے کے ایفائے عہد کی اُس کے دَر پہ لیکِن
وُہی نہ ہو اِس گَداگری میں قَلندری کا ہُنر بھی جائے
غَروب کے وقت سے چھَتوں پَر کَھڑے کَھڑے لوگ تَھک گئے ہیں
گُزرنے والا ہے کوئی سیلاب شہر سے تو گُزر بھی جائے
جہاں مرا کھیت تھا، وہاں ریت ڈالتا جا رہا ہے پانی
مرے لیے فَرق کیا پَڑے گا، جو اَب یہ دَریا اُتر بھی جائے
افق کے اس پار شہر خورشید میں سحر منتظر ہے میری
وہ کہہ رہے ہیں کہ دیکھ لوں میں مگر وہاں تک نظر بھی جائے
دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں
ترکِ محبت، ترکِ تمنا کر چکنے کے بعد
ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بھلائیں تمہیں
سناٹا جب تنہائی کے زہر میں گھلتا ہے
وہ گھڑیاں کیونکر کٹتی ہیں، کیسے بتائیں تمہیں
آبنائے درد کے دونوں طرف ہے دشتِ خوف
اب تو چارہ جان دینے کے سوا کچھ نہیں
تھا کبھی لازمی نصاب وفا
اب یہ مضمون اختیاری ہے
اپنی صورت بگڑ گئی لیکن
ہم انہیں آئینہ دکھا کے رہے
ہے جاں عزیز تو آنکھوں پہ ہاتھ دھر کے مڑو
ہے یہ وہ موڑ جہاں ڈر دکھائی دیتا ہے