سوشل میڈیایعنی یوٹیوب ،فیس بک ، ٹوئیٹر اور انسٹا گرام پر’ ’ریٹنگ “اور ڈالروں کے لالچ میں جھوٹی ، بے بنیاد اور بے ہودہ اور غیر شائستہ وڈیوز وائرل کرنے کا دھندہ تمام تر اسلامی و اخلاقی حدود کو پار کر چکا ہے ۔یہ جدید ٹیکنالوجی کی ایک ایسی یلغار ہے کہ جس کے آگے بندھ باندھنا ،حکومت یا کسی انسان کے بس میں نہیں رہا ۔ حتیٰ کہ اس معاملے میںپاکستان کی حد تک تو ”حکومتی رٹ“ بھی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔جھوٹ پھیلانا اور لوگوں کی عزت کا جنازہ نکالنا گویا کوئی عیب نہیں ۔کراچی سے اغواءکرکے لاہورلے جائی جانے والی ایک ”پری“کی کورٹ میرج کو مرضی کی شادی کا نام دے کر جس طرح گذشتہ 5ماہ سے بعض” سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ“نے بچی کے والدین کو بدنام کرنے کی مہم چلا رکھی ہے ،یہ واقعہ بھی قوم کی بیٹیوں اور ان کے ورثاءکی عزت و تکریم کا جنازہ نکالنے کے حوالے سے ایک سوالیہ نشان ہے ۔ بعض ”سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ“خبرکی تلاش میں لوگوں کے گھروں تک رسائی حاصل کرکے خاندانوں کی تباہی و بربادی کا سامان کرنے میں لگے ہیں ۔اور کچھ بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا ۔کے مصداق ”ٹیبل سٹوریز “ کے ذریعے اپنا نام بنانے کی ناکام کوشش میں لگے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک انگریزی اخبار میں ہولی فیملی ہسپتال کی یسریٰ نامی لیڈی ڈاکٹر کے خلاف یہ خبر شائع کی گئی کہ موصوفہ بلڈ بنک میں آنے والے” سیمپلز کا خون “چکھنے کی عادتِ بد میں مبتلا ہیں اور اب تک 7969مردو خواتین مریضوں کا خون چکھ چکی ہیں ۔جن میں سب سے زیادہ حاملہ خواتین اورمردوں کا خون ہے ۔انگریزی صحافت سے وابستہ صحافیوںنے ہمیشہ ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے یہی وجہ ہے کہ اردو کے مقابلے میں انگریزی اخبارات میں شائع شدہ خبرکی سچائی پر لوگ یقین بھی کرتے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ یہی جھوٹی خبر بعد ازاں کچھ اردو اخبارات میں رپورٹرز حضرات نے اپنے نام سے شائع کی ۔اور سوشل میڈیا پر بھی تسلسل کے ساتھ وائرل کی جاتی رہی ۔اور اب بھی کچھ لوگ اسی خبر کو اچھال رہے ہیں۔شائع شدہ خبر کے جھوٹا ہونے کا ثبوت اس کے متن میں ہی شامل ہے ۔ایک بات تو طے ہے کہ مذکورہ لیڈی ڈاکٹر کو ہولی فیملی ہسپتال جوائن کئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے ۔اس پر یہ کہ اس کی ڈیوٹی ”سیمپلنگ“ یا خون ٹیسٹ والی لیبارٹری میں بھی نہیں تھی ۔رپورٹر نے خبر میں خون چکھنے کے واقعات کی تعداد بھی شامل کی تاکہ لوگوں کو یقین ہو کہ خبر واقعی درست ہے ۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کسی نے بھی لیڈی ڈاکٹر مذکورہ یا اس کے والدین یا عملے کے کسی رکن سے اس کی تصدیق کا کہیں ذکر نہیں کیا ۔بلکہ روایتی طور پر خبر میں یہ لکھا کہ اس انکشاف کے بعد مذکورہ لیڈی ڈاکٹرکو ”بحالی مرکز“منتقل کردیا گیا اور اس کے اہل خانہ روپوش ہو چکے ہیں اور ان کا فون بھی بند جا رہا ہے ۔۔یہ باتیں صحافتی بددیانتی اور غیر ذمہ دارانہ سوچ کی عکاس ہیں ۔ان بے رحم رپورٹرزاور ”وڈیوز وائرل مافیا “نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا ۔اپنی خبر کو سچا ثابت کرنے کےلئے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر مزید خبریں اور ایسی تصاویر بھی ”فوٹو شاپ “ کرکے چلائیں کہ ڈاکٹر مذکورہ کو پولیس نے تھانے لے جا کر خوب تشدد بھی کیا ہے اور تصویر میں اس کے چہرے پر لگے زخموں پرپٹیاں بھی بندھی دکھا دی گئیں ۔
ڈاکٹر یسریٰ کے بارے میں من گھڑت خبر شائع ہونے پر ہولی فیملی ہسپتال کی انتظامیہ نے فوری ایکشن لیا اورمیڈیکل سپریننڈنٹ نے ایک تحقیقاتی بورڈ تشکیل دیا جس نے حقائق جاننے کی کارروائی کو آگے بڑھایا اور بورڈ اراکین نے اس بات کی تصدیق کردی کہ”لیڈی ڈاکٹر کے بارے میں شائع شدہ خبر سراسر جھوٹ کا پلندہ ہے “ ۔کہا جاتا ہے کہ رپورٹر نے چپقلش کی بنیاد پر سازش کے تحت ڈاکٹر صاحبہ کو بدنام کرنے کےلئے ان کے خلاف نیوز شائع کی ۔پیدا شدہ صورتحال پر سب سے اہم کام سہراب برکت نامی اینکر ویوٹیوبر نے کیا ۔انہوں نے فوری طور پر لیڈی ڈاکٹر یسریٰ اور اس کے والدین سے رابطہ کیا اور ان سے کی گئی گفتگو ”آن ایئر“کرتے ہوئے تما م حقائق آشکار کر دئیے ۔سہراب برکت نے اپنی وڈیوز میں ”جھوٹ“ کوہوا دینے والے ”یوٹیوبرز “کو بھی آئینہ دکھایا ۔اور غمزدہ خاندان کے دکھ کو بانٹنے کی سعی کرکے اپنی صحافتی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھایا ۔اس کاوش پر سلام سہراب برکت کو ،جس نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر متاثرہ لیڈی ڈاکٹر سے رابطہ کیا ۔ ڈاکٹر یسری ٰ اور اس کے غریب والدین پر اس جھوٹی خبر سے جو قیامت ٹوٹی اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ہم کتنے بے حس اور مفاد پرست ہیں کہ ہم اپنی روزی روٹی کےلئے اللہ کی مخلوق کا سکھ چین چھین لیتے ہیں ۔انہیں زندہ درگور کر دیتے ہیں ۔میڈیا کی اس غیر ذمہ دارانہ روش کی وجہ سے کتنے ہی لوگوں کی جانیں چلی گئی ۔کتنے گھرانے بربادی کی تصویر بن چکے ہیں ۔یہ لوگ کسی انسان کی زندگی برباد کرتے وقت اگر اپنے گریبان میں جھانک لیں تو شائد یہ سب جھوٹ پھیلانے سے پہلے ہزار بار سوچیں کہ یہ ایسا گناہ کبیرہ ہے کہ جس کی کوئی معافی نہیں ۔یہ ”ریٹنگ “اور یہود و نصاریٰ سے ملنے والے” ڈالر“ ہماری زندگی کو تو سہل بنا دیتے ہیں ۔ہم جھوٹ اور مکاری سے اپنی اولادوں کے لئے محل نما ءگھر اور تمام تر دنیاوی آسائشیں تو اکٹھی کر لیتے ہیں ۔لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سبھی مال و دولت دنیا میں ہی رہ جائے گی ۔مرنے کے بعد تو ورثا ءتن پر موجود کپڑے بھی اتار لیتے ہیں ۔اور کفن کے ساتھ ساتھ دو گز زمین بھی مقدر والوں کو ہی ملتی ہے ۔ورنہ بسا اوقات انسان کا ایسا بھیانک انجام بھی لوگ دیکھتے ہیں کہ جہاں انسان کے جسم کے بکھرے ہوئے ٹکڑے بھی سمیٹنا مشکل ہو جاتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلا دیتا ہے ۔اسلام تو عیبوں پر پردہ ڈالنے کی تلقین کرنا ہے ۔ہم کیسے لوگ ہیں کہ انسانوں کو ”بے پردہ “کرکے اپنے اور اپنے بچوں کےلئے پیسہ کماتے ہیں ۔قلم کی حرمت ماں کی عصمت کی طرح پاک ہونی چاہئے ۔دوسروں کو غلط ثابت کرنے والے اگر اپنی اصلاح پر ہی دھیان دیں تو معاشرہ جنت کا نمونہ بن سکتا ہے ۔خبر کی اشاعت سے کوئی بھی انہونی ہوسکتی تھی ۔کیونکہ ہم میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو حقائق جانے بغیر کی ”بے گناہوں “ پر چڑھ دوڑتے ہیں ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ ”سوشل میڈیا “کو بھی لوگوں کی خرافات سے بچانے کی کوئی راہ نکالیں، خبر شائع کرنے والوں کے خلاف ایکشن لے ۔مذکورہ خبر سے لیڈی ڈاکٹر یسریٰ اور اس کے والدین کو ہونے والی اذیت کا کوئی بدل نہیں ۔لیکن اس موقع پر ہم مذکورہ انگریزی اخبار کے رپورٹرسمیت دیگر سچ کے علمبرداروں سے بھی گذارش کریں گے کہ وہ متاثرہ لیڈی ڈاکٹر اور اس کے والدین سے ان کے گھر جا کر معافی مانگیں ۔دُعا ہے کہ اللہ اس فیملی کواپنی حفظ و امان نیں رکھے
Follow Us