صحافت کی دنیا سے میرا تعارف 1960ء کی دہائی میں ہوا۔ اس طویل عرصہ میں بہت سے صحافی حضرات سے واسطہ رہا۔ جن چند درویش منش، قناعت پسند، نظریاتی صحافیوں سے میں متاثر ہوا ان میں سعید آسی کا قابل عزت نام سرفہرست ہے۔ خاموش لیکن مسکرا کر خوش آمدید کہنے والا سعید آسی ہر خبر کو فوری طور پر قبول کرنے کی بجائے اس کا فکری تجزیہ کر کے ہی سپردِ قلم کرتا ہے۔ سعید نے قانون کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے۔ اس لیے اسے خبر کی تعریف کا علم ہے۔ خبر کی اسلامی فقہ کے مطابق تعریف یہ ہے کہ خبر وہ اطلاع ہے جس کی تردید کی جا سکے اور اس کی تصدیق یعنی Corroboration بھی کی جا سکے۔ سعید ان صحافیوں میں سے ہیں جن کی حساس انگلیاں قومی معاملات کی نبض پر رکھی ہوتی ہیں۔ ایک ماہر حکیم کی طرح وہ نہ صرف محرکات کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ اہداف کی طرف اشارہ کر کے نسخہ بھی تجویز کرتے ہیں۔
سعید اچھے شاعر بھی ہیں۔ ان کی شاعری کا موضوع انسان ہے۔ ایسا شاعر طبعاً بڑا حساس ہوتا ہے۔ وہ متوازن معاشرہ کی تلاش میں ہوتا ہے۔ یہ تلاش صحافت میں بڑے کام آتی ہے۔ آسی کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور ایک لکھاری کی حیثیت میں انھوں نے پاکستان کی ادبی دنیا میں اپنا مقام بنایا ہے۔ ’اشرافیہ اور عوام‘ کے بعد ان کی تازہ ترین کتاب ان کے کالموں اور ’نوائے وقت‘ کے ادارتی صفحہ پر شائع ہونے والے تبصروں میں سے خاص نوعیت کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعہ کا دلچسپ پہلو اس کا عنوان ہے، ’آئین کا مقدمہ‘۔ یہ ایک فکر انگیز اور درد آفریں عنوان ہے۔ اس مجموعہ میں ایک حساس شہری کے وہ تأثرات ہیں جو ہماری سیاسی جماعتوں کی آئینی کارکردگی کے باعث ظہور پذیر ہوئے۔ وطن عزیز میں آئین سازی کی تاریخ بڑی دلخراش ہے۔ نہ صرف پہلی کوشش طوالت کا شکار ہوئی بلکہ 1954ء کے اواخر میں جب کہ اس بنیادی قانون کا مسودہ تیار تھا ایک پاگل گورنر جنرل کے ہاتھوں پیدائش سے پہلے Stillbirth کا شکار ہوا جس سارے معاملہ پر پاکستان فیڈرل کورٹ کے سربراہ جسٹس محمد منیر نے قبولیت کی مہر لگا دی۔
ازاں بعد جنرل ایوب کے غاصبانہ دور سے آئین ہماری سیاست کا ’بازیچۂ اطفال‘ بنا۔۔۔ ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے۔۔۔ وہ دن اور آج کا دن یہ تماشا اب مذاق بن چکا ہے۔ اس درد کو عوامی سطح پر محسوس تو کیا گیا لیکن اس کا باقاعدہ اظہار سعید آسی کی تازہ ترین فکری کاوش کے عنوان سے ہو رہا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے سعید آسی کی انسان دوستی، قانون کی بالادستی، شخصی آزادی، تدبیر منزل، حقوقِ بشری، شفاف نظامِ عدل گستری اور متوازن معاشرہ کے قیام کی آرزو کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب عوام کی طرف سے وقت اور تاریخ کی عدالت میں دائر کردہ استغاثہ ہے لیکن اس استغاثہ کا فیصلہ کون کرے گا؟ کیونکہ ہم مسلم امت کے رکن ہونے کے باوجود قرآن کے اس قول سے غافل ہیں ، ’اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بے شک میری امت نے اس قرآن کو غیر مؤثر کر دیا ہے‘ (سورۃ الفرقان، آیت 30 ) ۔
جس قوم کے صدر (خود ساختہ امیر المؤمنین جنرل ضیائ) کا یہ قول ہو کہ آئین کی کیا حیثیت ہے، یہ چند کاغذوں کا مجموعہ ہے جسے پھاڑ کر پھینکا جا سکتا ہے، اور اس کے مرنے کے بعد ہماری سیاسی اشرافیہ کا ہدف یہ بھی ہوا کہ جنرل ضیاء کے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ ان سے وفا کی امید عبث ہے۔ کالم نویسی اردو ادب کا مقبول شعبہ بن چکا ہے۔ اس صنف کی کافی کتابیں منصۂ شہود پر آچکی ہیں۔ان کتب کی اشاعت کا یہ فائدہ ہے کہ ہماری زبانی تاریخ (Oral History) مرتب ہو رہی ہے۔ مؤرخ کے لیے یہ خام مال ممد ثابت ہو گا۔ ایک عام قاری کالموں کے مطالعہ کے ذریعہ مختلف النوع موضوعات پڑھ کر حالات حاضرہ سے بیگانہ نہیں رہتا۔ یہ ضروری نہیں کہ کالم نگار سے متفق ہوا جائے لیکن کالم کی اپنی حیثیت مسلم ہے۔ کالم نگار اگر دیانتدار تجزیہ نویس ہے تو اس کی رائے قارئین کی غالب اکثریت کو متاثر کرتی ہے۔
جس قوم کے صدر (خود ساختہ امیر المؤمنین جنرل ضیائ) کا یہ قول ہو کہ آئین کی کیا حیثیت ہے، یہ چند کاغذوں کا مجموعہ ہے جسے پھاڑ کر پھینکا جا سکتا ہے، اور اس کے مرنے کے بعد ہماری سیاسی اشرافیہ کا ہدف یہ بھی ہوا کہ جنرل ضیاء کے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ ان سے وفا کی امید عبث ہے۔ کالم نویسی اردو ادب کا مقبول شعبہ بن چکا ہے۔ اس صنف کی کافی کتابیں منصۂ شہود پر آچکی ہیں۔ان کتب کی اشاعت کا یہ فائدہ ہے کہ ہماری زبانی تاریخ (Oral History) مرتب ہو رہی ہے۔ مؤرخ کے لیے یہ خام مال ممد ثابت ہو گا۔ ایک عام قاری کالموں کے مطالعہ کے ذریعہ مختلف النوع موضوعات پڑھ کر حالات حاضرہ سے بیگانہ نہیں رہتا۔ یہ ضروری نہیں کہ کالم نگار سے متفق ہوا جائے لیکن کالم کی اپنی حیثیت مسلم ہے۔ کالم نگار اگر دیانتدار تجزیہ نویس ہے تو اس کی رائے قارئین کی غالب اکثریت کو متاثر کرتی ہے
ہمارے ممدوح سعید آسی عوام میں اچھی شہرت کے حامل ہیں، لہٰذا ان کے قارئین کا ایک حلقہ بن چکا ہے۔ آخر میں آسی صاحب سے گزارش ہے کہ اپنے طویل تجربہ کی روشنی میں اس موضوع کو بھی زیر بحث لائیں کہ قائد اعظم جیسی شخصیت کے جانشین کے جانشین پاکستان میں پیدا کیوں نہ ہو سکے جو جمہوری حقوق کے تحفظ، آئین اور قانون کی بالادستی، اعلیٰ اقدار اور اخلاقی ضابطوں کی پاسداری کو مستحکم کرتے، جو منافقانہ طرزِ حیات کی بجائے باوقار زندگی گزارنے کی مثال قائم کرتے۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا