قدرتی آفات سے تقریبا دنیا کے تمام ہی خطے متاثر ہوتے ہیں۔ کہیں ہوا کے جھکڑ طوفان کی شکل اختیار کر کے سب کچھ اڑا لے جاتے ہیں ، تو کہیں برف کا طوفان سب کچھ منجمد کر دیتا ہے۔ کہیں سمندر بپھر کر شہروں میں جا گھستا ہے تو کہیں پر لینڈ سلائیڈنگ لوگوں کا زمینی رابطہ منقطع کر دیتی ہے۔ کہیں زلزلے زمین کو اپر نیچے کر دیتے ہیں۔ تو کہیں برسات میں سیلابی ریلے بستیوں ، مویشیوں ، بچوں بوڑھوں اور جوانوں کو خشک و خاشاک کی طرح بہا لے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک سوال اٹھتا ہے۔
کیا خود کو قدرتی آفات کے سپرد کر دیا جائے ؟
ان آفات کو قدرت سے منسوب کر کے انتظامیہ بری الزمہ قرار پا سکتی ہے ؟
ان سوالوں کا حل تلاش کرتے ہیں۔ جہاں ہوا کے جھکڑ چلتے ہیں۔ ان علاقوں میں لوگوں نے زیر زمین تہہ خانے بنائے ہیں۔ اور وہ لوگ طوفان کی صورت میں تہہ خانے میں چلے جاتے ہیں۔ جس سے مال نہ سہی زندگی تو بچائی جا سکتی ہے ، اسی طرح ساحل سمندر پر آنے والے طوفانوں سے بیشتر علاقے خالی کروا لیے جاتے ہیں۔ جہاں سیلاب زیادہ آتے ہوں وہاں ڈیم بنائے جاتے ہیں۔ سیلاب کے راستوں کو بدلا جاتا ہے۔ زلزلوں کے لیے زلزلہ پروف عمارتیں بنائی جاتی ہیں۔ برفانی علاقوں میں طوفان سے پہلے اطلاع دے دی جاتی ہے۔ لوگ ضروریات زندگی محفوظ کر لیتے ہیں۔
لیکن پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی حالیہ تباہی دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان میں ہمارے سیاستدانوں کو اپنی بقا کی جنگ کے علاوہ کسی کی پرواہ نہیں۔ وہ بس یہ ہی چاہتے ہیں کہ ہم جتنا چاہیے ملک لوٹ لیں کیا جتنی دولت ہمارے حکمرانوں نے لوٹی ہے اس سے ڈیم نہیں بن سکتے تھے؟ اور ان ڈیموں سے کتنی قیمتی جانیں بچائی جا سکتی تھیں ، بجلی کی پیدوار بڑھائی جا سکتی تھی۔ لیکن نہیں۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ہم سے اربوں روپے وصول کر کے کام چل تو رہا ہے۔ جو اصل منصوبے ہیں۔ جن سے ملک و قوم کا حقیقی فائدہ ہو سکتا ہے۔ ان کی بجائے دکھاوا کے لیے مصنوعی ، وقتی ،اور عارضی منصوبے دکھا کر عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔
جن کے نتائج اب جنوبی پنجاب اور تونسہ میں معصوم جانوں کو بھگتنے پڑے ہیں۔ یہ حکمران اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کو بس اپنی اور اپنی نسلوں کی فکر ہے۔ یہ ایسے منصوبے کبھی نہیں لائیں گے جن سے ان کیڑے مکوڑوں کا فائدہ ہو۔ انھیں قدرت کا حکم سمجھ کر تسلیم کرنے پر زور دیا جائے گا تو کہیں ڈھٹائی سے انھیں سسکتے لوگوں کے گناہوں کی سزا کہا جائے گا۔ ان معصوموں کا گناہ کچے گھر اور چند مویشی جو انہوں نے جانے کتنی محنت اور فاقوں کے بعد تعمیر کیے ہوں گے۔ اور تم لوگ جو ملک و قوم کو بیچ کر کھا گئے۔ کیا تمھارے گناہ بڑے نہیں۔ کیا آسمانی بجلی تم لوگوں پر نہیں گرنی چاہیے۔ ایسے بیان حکمرانوں کی سنگدلی اور بے حسی اور ڈھٹائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سیلاب میں بہتے معصوم ننھی کلیوں کا کیا گناہ تھا ۔ یاد رکھیں ! روز حساب بھی آئے گا۔ تو کیا منہ دکھاؤ گے۔ یہ ننھی کلیاں تمھارا گریبان ضرور پکڑیں گی۔ حسب حال شہزاد نیر صاحب کی غزل
پانی پانی کے اِک شور میں کتنی چیخیں ڈوب گئیں
پہلے کچھ آوازیں ابھریں آخر سانسیں ڈوب گئیں
کون سِدھائے بپھرا پانی، کون اُسارے مٹّی کو
دریاؤں پر پشتے باندھنے والی بانہیں ڈوب گئیں
پانی کا عفریت اچھل کر شہ رگ تک آ پہنچا تھا
بچے جس پر بیٹھے تھے اس پیڑ کی شاخیں ڈوب گئیں
پتھر کوٹنے والے ھاتھوں میں بچوں کے لاشے تھے
شہر کو جانے والی ساری ٹوٹی سڑکیں ڈوب گئیں
بربادی پر گریہ کرنے کی مہلت بھی پاس نہ تھی
آنسو بہنے سے پہلے ہی سب کی آنکھیں ڈوب گئیں
بستی میں کہرام مچا تھا، آدم روزی مانگ رہا تھا
"رازق، رازق” کہتے کہتے سب کی نبضیں ڈوب گئیں
نیّر جگ کی اونچ نیچ نے پانی کا رخ موڑ دیا
تیری مل تو وہیں کھڑی ھے،میری فصلیں ڈوب گئیں