پری مون سون اور مون سون میں غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے جولائی کے وسط سے سیلابی ریلے بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے دوردراز دیہاتوں میں تباہی مچا رہے تھے لیکن جولائی سے لے کر اگست کے آخری ہفتے تک اہل سیاست اور ہمارا مین سٹریم میڈیا سیلاب کی تباہ کاریوں سے یکسر غافل ۔ریا ۔
سوشل میڈیا کا دم غنیمت ہے جس نے غافل اہل سیاست اور مین سٹریم میڈیا کو جھنجوڑا اور سیلاب زدگان کی مصیبتوں کا احساس دلایا۔
اب میڈیا بھی چوکس ہے دن رات سیلاب کی تازہ ترین صورت حال بتا رہا ہے۔ اپنے نمائندوں کو دور دراز مصیبت میں گھرے ہوئے علاقوں میں بھیج کر لائیو کوریج کروا رہا ہے ۔سٹوڈیو میں بیٹھ کر پروگرام کرنے والے گلیمرس ٹی وی اینکرز بھی اب اب سیلابی پانیوں میں کھڑے کے سیلاب زدگان کی اذیتوں کی لائیو کوریج کرتے نظر آتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں مریم نواز شریف جاتی عمرہ سے سے شاندار گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ تونسہ کے سیلاب زدگان سے اظہار یکجہتی کے لیے روانہ ہوتے دیکھا تو خیال آیا کہ سیاست ہے تو ظالم شےامیج بلڈنگ کے لیے کیا روپ بہروپ بھرنے پڑتے ہیں۔میلے کچیلے غریب بچوں کو گود میں اٹھانا پڑتا ہے۔غریب میلے کپڑوں والی عورتوں کو گلے سے لگا کر تسلی دینا پڑتی ۔
کپتان نے بھی سیاست کے خمار سے بصد مجبوری باہر نکل کر سیلاب زدگان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے کا فیصلہ کیا وگرنہ ابھی تک تو حقیقی آزادی کے نام پر جلسے پہ جلسہ ہی کھیلا جارہا تھا۔
تازہ ترین ٹیلی تھون سے ڈھائی گھنٹے کے دوران کپتان نے پانچ سو کروڑ روپیہ جمع کیے ۔تحریک انصاف کریڈٹ لے رہی ہے کہ یہ
اور سیز پاکستانیوں کا کپتان پر اعتماد کا اظہار ہے ۔
اعلانات کی حدتک یقینا پانچ سو کروڑ جمع ہوچکے ہیں لیکن اعلان ہونے سے کیا ہوتا ہے ۔
کچھ بد خواہوں کا کہنا ہے کہ پانچ سو کروڑ بھی کپتان کے پچاس لاکھ گھروں بلین ٹری منصوبے اور ایک کروڑ نوکریوں کی طرح کا محض ایک ہوائی منصوبہ ہے ۔
ہم امید کرتے ہیں کہ یہ جو پیسہ پاکستان کے مصیبت زدوں کے نام پر اکھٹا کیا جارہا ہے اس میں کوئی خرد برد نہیں ہوگی ۔
2020میں تحریک انصاف کی حکومت تھی اور ہم نے کرونا کے کرائسس کا سا منا کیا۔ دنیا بھر سے پاکستان کو امداد آئی ۔
نشینل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی پر 40ارب روپے کی مالی بے ضابطیگیوں کا الزام ہے یادرہے کہ یہ ادارہ براہ راست وزیراعظم کی سر پرستی میں کام کرتا ہے ۔
یہ پیسہ بھی عام پاکستانی کی بحالی کے لیے دیا گیا تھا جو خرد برد ہوا۔ یہ انتہائی سنگین الزام ہیں یہ وہ حقائق ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
میری ذاتی رائے میں سیلاب زدگان کی ویلفیئر کے لئے جو بھی پیسہ دینا چاہتا ہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کو نہ دے حکومت کے اعلان کردہ اکاؤنٹ پر بھی ہمیں اعتبار نہیں ہے ہمیں ان ویلفئیر تنظیموں پر اعتماد ہے جو پہلے سے میدان عمل میں کام کر رہی ہیں۔
یہاں تک کہ جنوبی پنجاب کے دور دراز دیہاتوں میں مخلص اور دیانتدار نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت ویلفیئر کا کام کر رہے ہیں ان پر بھی اعتماد کرسکتے ہیں ان کے ہاتھ بھی مضبوط کریں ۔ لیکن خدا کے لئے اگر آپ کو سیلاب زدگان سے دلی ہمدردی ہے تو اپنی قیمتی اہل سیاست کے کھوہ کھاتے میں نہ ڈالیں۔
مکرر عرض یہ ہے کہ سیلابی آفت کے دوران جہاں اہل سیاست کی روایتی بے حسی ہمیں نظر آرہی ہے ۔وہیں ہم تک ایسی ایسی دل گرما دینے والی خبریں پہنچ رہی ہیں کہ۔ دل اللہ کے حضور سجدہ سجدہ ریز ہو جاتا ہے ۔
میں نے یہی ارادہ کیا ہے کہ سیلاب کے دنوں میں جو پاکستانی بے لوث خدمت خلق میں مصروف ہیں ان کا ذکر ضرور اپنے کالموں میں کروں گی ۔ اہل سیاست کی طرف سے ہمیں دکھاوے اور ریاکاری پر مبنی ہمدردی کے مناظر نظر آتے ہیں جبکہ عام پاکستانی آندھیوں میں۔ چراغ جلارہے ہیں ۔
نوشہرہ کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر قراۃالعین سے احساس ذمہ داری سے سرشار ہو کر کس طرح نوشہرہ کے گلی کوچوں میں نکلیں ہیں اور سیلابی پانیوں میں چلتی ہوئی گھر گھر دروازے کھٹکھٹائے ہیں اور لوگوں کو آنے والی آفت سے خبردار کیا ۔
قراۃالعین نے ہمارے سروں کو فخر سے بلند کر دیا
نوشہرہ میں سیلابی ریلے کی آمد کی اطلاع تھی جانی نقصان سے بچنے کے لیے ضروری تھا کہ لوگ گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات پر چلے جائیں مگر بہت سے لوگوں نے اپنے گھروں کو خالی کرنے سے انکار کر دیا ایسے میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر قرۃالعین وزیر خود میدان عمل میں اتریں ہاتھ میں ڈنڈا پکڑا ہوا تھا ان کی دبنگ انداز کی ویڈیو سب نے دیکھی اور بہت سراہا انہیں سپر وومن کا خطاب دیا گیا
خاتون ڈپٹی کمشنر ابھی تک بڑی تندہی اور اور فرائض منصبی کی ادائیگی کو پوری فرض شناسی کے ساتھ ادا کر رہی ہیں ۔خیمے لگائے گئے وہاں موجود لوگوں کے کھانوں کا بندوبست کیا انہوں نے بتایا کہ تین سے چار ہزار دیگیں پکوا کر نوشہرہ کے شہریوں کو کھانا دیا جارہا ہے ۔
سچ پوچھیں تو اس پر پہنچ شیردل ڈپٹی کمشنر کی تمام ویڈیو دل موہ لینے والے تھی۔
جس جذبے سے وہ اپنے فرض کو ادا کر رہی تھی یہ حیران کن تھا بہت سے لوگوں نے فیس بک پر پوسٹ لگائی کہ کی کاش ہمارے سیاستدان اور ہمارے وزیر مشیر عوامی نمائندے بھی مصیبت کی اس گھڑی میں ایسے ہی مدد کو نکلتے ۔
قرۃالعین وزیر نے جس طرح نوشہرہ کے باسیوں کی زندگیوں کو بچایا وہ سب کے سامنے ہیں سیلابی ریلوں کے شہر میں داخل ہونے کے باوجود کوئی جانی نقصان نہیں ہوا مجھے ایک شعر یاد آتا ہے جو والد صاحب ہمیں سنایا کرتے تھے
سو جاؤ عزیزو کہ فصیلوں پہ ہر اک سمت
ہم لوگ ابھی زندہ و بیدار کھڑے ہیں۔
نو شہرہ کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر قرات العین وزیر بھی ایک ایسے ہی اساطیری کردار کی جیتی جاگتی تصویر دکھائی دیں جو اپنے فرض کی ادائیگی میں زندہ و بیدار ہونے کا ثبوت دیتے ہیں