شاعری ،افسانہ ، ناول
شاعری ،افسانہ ، ناول آج کے صارف معاشرے میں ایک جنس (Commodity ) کے طور پر بھی سامنے آرہے ہیں جہاں مارکیٹ کے رجحانات کو سامنے رکھ کر ایک خاص طرح کی پراڈکٹ بیچنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔پاکستانی ادبی منظر کا مشاہدہ کرتے ہوۓ اگر سوشل میڈیا کا جاٸزہ لیا جاۓ تو معروف اور غیر معروف ناشر اداروں کی اکثریت ایسے اشاعتی عمل کی طرف راغب نظر آتی ہے جس میں یا تو ایسے ادیبوں کی کتابیں شاٸع کرنے کی مہم نظر آتی ہے جو مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ مرحوم بھی ہو چکے ہیں یا اردو ادب کی عصری تخلیقی رو کو نظر انداز کرتے ہوۓ شہرہ آفاق لکھاریوں کے تراجم کی اشاعت پر توجہ دی جارہی ہے ۔بظاہر اس عمل پر اعتراض کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا کہ پاکستانی معاشرے میں کتاب کی ثقافت یقیناً ترویج نہیں پا سکی اور کتاب کا کسی نہ کسی سطح پر فروغ پذیر ہونا ایک مستحسن عمل سمجھا جاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں جہاں آن لاٸن مارکیٹنگ بھر پور طور فروغ پا رہی ہے اور صارف کو ترغیب دینے اور لبھانے کے بہتر ذرائع میسر ہو گئے ہیں وہاں کچھ دیر رک کر اس امر پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا پیزا اور برگر کی طرح جلدی میں تیار شدہ پیکیج ادبی سرگرمی کی صحیح معنوں میں ترویج کر رہے ہیں یا معاملہ اس کے بر عکس ہے ۔میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ادب کی تازہ کاری اور تخلیقی جہت کی طرف اس سارے عمل میں توجہ کم ہے اور قاری کے تخیل کی آبیاری کا اہتمام نہ ہونے کے برابر ۔برسوں پہلے جب ”آج “ جیسے معیاری جریدے نے اعلیٰ غیر ملکی تراجم کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا تھا تو یوں لگ رہا تھا کہ پاکستانی ادبی منظر میں وہ رنگا رنگی اور شادابی شروع ہوئی ہے جو قاری کے ادبی اور جمالیاتی ذوق کو ایک نٸی بلند سطح سے متعارف کروا رہی ہے لیکن ترجموں کی بے جا افراط نے سنجیدہ قاری کے عالمی ادب پڑھنے کی خواہش کو منفی طور پر متاثر کیا ہے اور مشہور ادیبوں کے غیر مستند تراجم اچھے ادبی ذوق کے حامل قارئین کی طبیعیت لیے گرانی اور ثقالت کا باعث بن رہے ہیں ۔اچھے تراجم کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہوتی تھی کہ ایک ترجمہ شدہ فن پارہ پڑھنے کے بعد نابغہ ادیبوں کے باقی کام کو دیکھنے اور جاننے کی خواہش پیدا ہوتی تھی اور وہ زبان جس سے ترجمہ کیا گیا ہو اس کو سیکھنے کی سعی کی جاتی تھی ۔ یوں ترجمہ شدہ تحریر ادبی ذوق کی تشفی کے ساتھ قاری کے مطالعہ کے سفر کو ایک نٸی سمت عطا کرتی تھی ۔
غیر معیاری تراجم کی اشاعت کے ساتھ ساتھ مقبول عام ادب کی ایسی کتابوں کا شاٸع ہونا جن سے ادیب یا اس کے اہل خانہ کے مالی مفاد کا کوئی تعلق نہیں ہوتا اور جن سے محض ناشرین فاٸدہ اٹھاتے ہیں ایک اور طرح سے ادبی معیار کو متاثر کرتا ہے کہ زندہ ادیب جو لمحہ ٕ حال میں موجود ہوتے ہوۓ عصری روح کے بہتر ترجمان ہوتے ہیں ان کا کام مقابلتاً دب جاتا ہے ۔عمومی طور پر ناشرین غالب معاشرتی رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوۓ ایسے شاعروں ادیبوں کی تحریریں شاٸع کرتے ہیں جو زیادہ تر ایسی پاپولسٹ اقدار کے علمبردار ہوتے ہیں جو قاری کے باطن کو تخلیقی انداز میں بیدار کرنے کی بجاۓ اسے ایک خواب آور گریز کی کیفیت میں رہنے کی طرف ماٸل رکھتی ہیں ۔
ایک بڑے پیمانے پر ہونے والا یہ کاروباری عمل نتیجتاً ایک ایسی سرگرمی کے فروغ کا باعث بنتا ہے جو بظاہر تو ادبی اور تخلیقی نظر آتی ہے اور ایک نو آموز قاری کو اس کی وجہ سے تسلی رہتی ہے لیکن درحقیقت یہ سرگرمی ایسی ہوتی نہیں ہے ۔
میرے نزدیک اس سارے عمل میں تبھی خاطر خواہ معنویت پیدا ہوسکتی ہے کہ اگر ادبی تخلیقات خواہ وہ طبع زاد ہوں یا ترجمہ شدہ ان کے پڑھنے سے آپ کے اندر وہ جمالیاتی نکھار اور وہ اہلیت پیدا ہو جس سے آپ اپنی ذات ،ماحول اور معروض کو درست طور پر پرکھتے ہوۓ اس وسیع و عریض کاٸنات کے اندر موجود فرد یا معاشرے کے ارتقائی سفر کا بہتر طور پر ادراک کر سکیں ۔اگر کوئی بھی سرگرمی ایسا کرنے سے قاصر ہے تو میں اسے شک کی نظر سے دیکھنے کا ذاتی حق رکھتا ہوں ۔