دریائے جہلم کے بائیں کنارے پہ آباد خوبصورت قصبےسرائے عالمگیر کی گود میں میرا بچپن ،لڑکپن اورجوانی ھلارے لیتے گزری ہے ۔ایک طرح سے یہ ایسا جزیرہ نما ہے جسے شمال مشرق سے نہر اپر جہلم،اور مغرب سے دریائے جہلم نے حصار میں لے رکھا ہے
سرائے عالمگیر کی تاریخ تقریباً ساڑھے تین سو سال پرانی ہے۔ اس وقت برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا چھٹا طاقتور بادشاہ اورنگزیب عالمگیر حکمران تھا ، وہ سرحد کے قبائل کی بغاوت کچلنے کی غرض سے حسن ابدال میں 1672سے 1675 تک قیام پذیر رہا ،اسی دوران دریائے جہلم کے مشرقی کنارے پر اس نے ایک سرائے بنوائی جس کا نام سرائے عالمگیر پڑ گیا۔
اس وقت آئے ہوئے مسافروں کے لیے ایک ڈاک بنگلہ تھا۔ یہاں مسافر، سفر کی تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے آرام کیا کرتے۔ اورنگزیب عالمگیر نے سرائے میں پانی پینے کے لیے کنواں، عبادت کے لیے مسجد بھی تعمیر کروائی، سایہ دار درخت لگوائے، وقت کے ساتھ مسجد منہدم ھو چکی ہے۔
اس شہر کی یادیں کبھی کبھی بہت بے چین کر دیتی ہیں۔1992 میں وقت کے ہاتھوں شہر بدر ہوتے ہوئے میں نے اس کی کنجیاں خود نئے امیر شہر کے حوالے کی تھیں اور نمدیدہ آبائی گاوں کو لوٹ آیا تھا جہاں میرے والدین اب آسودہء خاک ہیں.اب اس بستی سے گزر ایک مسافر کی طرح ہی ہوتا ہے ۔
آج گرمی کی شدت،حبس کے عذاب ،اور آلودہ تپتی فضا نے مجھے سرائےعالمگیر کے سینے پہ گزرتی ہوئی بادشاہ شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی، جرنیلی سڑک کے دونوں کناروں پہ لگی ہوئی بلند قامت ،شیشم کے درختوں کی یاد تازہ کرا دی ۔
میری عمر کے دوستوں کو اگر کبھی اس جی ٹی روڈ پہ سفر کرنے کا موقع ملا ہو تو انہیں یاد ہو گا کہ ستر اسی کی دہائی میں یہ روڈ ایک مختصر سے گولے metteled بیلٹ پہ مشمعل تھی ۔ تار کول سے آراستہ روڈ کی چوڑائی اندازا” بیس تیس فٹ بمشکل ہوگی البتہ سڑک کا کچا کالر دونوں طرف کافی چوڑا تھا ۔اس کالر کے اختتام پر دریائے جہلم سے لے کر سرائے عالمگیر شہر کے بیچوں بیچ ،کھاریاں کی پبی کی شروعات تک سڑک کے دونوں طرف کچھ کچھ وقفے پہ دیو قامت شیشم (ٹاہلی ،اب میں دانستہ طور پہ ٹاہلی ہی کا لفظ استعمال کروں گا کہ اس سے بہت مانوسیت ٹپکتی ھے) کے بڑے بڑے قد آور درخت اپنی بہار دکھا رہے ہوتے تھے۔
میں آپ سے کیا عرض کروں کہ ان بلند قامت سایہ دار ٹاہلیوں نے کتنے انسانوں کے دکھ درد اپنے اندر سمیٹ رکھے تھے ۔ اس وقت سرائے عالمگیر سے جہلم ٹانگے چلا کرتے تھے۔ باقاعدہ طور پہ ٹانگہ اسٹینڈ تو نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ انہی دیوقامت ٹاہلیوں کے سائے میں ٹانگہ بان ٹانگے پارک کرتے اور سواریوں کا انتظار کرتے رہتے تھے ۔
سرائے عالمگیر کے مضافات میں دور اور نزدیک جانے والی ٹرانسپورٹ کے چھوٹے چھوٹے اڈے بھی ان ہی ٹاہلیوں کے سائے میں قائم تھے ۔نواحی قصبے اورنگ آباد شمس آباد کی طرف سے آنے والی سڑک جہاں جی ٹی روڈ سے ملتی تھی وہاں رش کی وجہ سے میلہ سا لگا رہتا تھا ۔یہیں سے جانب مشرق کوئی ایک کلو میڑ کی دوری پہ جی ٹی روڈ کے کنارے پہ ہی ایک دیوقامت ٹاہلی کے نیچے میرپور اور بھمبر جانے والی بسوں کا اڈا ہوتا تھا ۔ اس وقت بھمبر سرائے عالمگیر کے لیئے ایک آدھ بس ہی چلا کرتی تھی جسے "مستری کی بس ” کہا جاتا تھا۔ جو صبح سویرے بھمبر سے سرائے عالمگیر کے لیئے نکلتی اور جاتلاں ، شکریلہ سے ہوتی ہوئی جہلم چلی جاتی ،جہلم سے واپسی پہ تقریبا” ظہر کے وقت سرائے عالمگیر میں ٹاہلی کے نیچے قائم بھمبر بس سٹینڈ پہ تھوڑی دیر رکتی ،سواریاں اٹھاتی اور واپس بھمبر کے لیئے روانہ ہو جاتی ۔
جی ٹی روڈ کے کنارے ان ایستادہ ٹاہلیوں کے سائے سے استفادہ کرنے والے اور لوگ بھی تھے اس وقت دکانوں کا کلچر ابھی زیادہ نہیں پھیلا تھا ۔ کسی باربر نے ٹاہلی کے نیچے اس کے تنے سے قدآدم آئینہ ٹکا رکھا ہے اور روزی روٹی پیدا کر رہا ھے ۔ تو کوئی دوسری ٹاہلی کے نیچے کھلے آلووں اور پیاز کے ڈھیر لگا کر ، روپے سیر ۔۔روپے سیر کی صدائیں لگا رہا ہے، کہیں پہ بندر کے تماشے والے نے بھی ٹاہلی کے سائے میں اپنی رونق لگا رکھی ھے۔ یہ دیکھیں دوسری طرف ایک فروٹ فروش نے ٹاہلی کے تنے کے چاروں طرف کریٹ لگا کر متنوع قسم کے پھل سجا رکھے ہیں ۔ریڑھی بان بھی ان ہی ٹاہلیوں کے سائے کے نیچے اپنے بچوں کی روزی روٹی کمانے کے لیئے جان لیوا دھوپ سے بچنے کے لیئے پناہ لیئے ہوئے ہیں ۔
شہر کے مغرب میں قدیم اقبال منڈی سے لے کر نہر اپر جہلم تک سڑک کے دونوں جانب کم کم فاصلے پہ زیادہ تعداد میں ٹاہلیوں کے درخت تھے ۔
ازاں بعد آبادی کا دباوء بڑھا، حضرت انسان کے زمین پہ چلنے پھرنے کے لئے راستے تنگ ہونا شروع ہوئے ، رہائش ،اور کاروباری ضرویات بڑھیں تو اس نے ۔۔۔صدیوں سے انسان کی غمخواری اور سہولت کاری کے لیئے اپنا تن من دھن پیش کرنے والی ان مشفق و سایہ دار ٹاہلیوں کو بڑی بڑی آرہ مشینوں سے زبح کر دیا ۔
جس سرائے عالمگیر کی میں بات کر رہا ہوں آج وہ شرقا” غربا” شمالا” جنوبا” بہت پھیل چکا ہے ۔سبز زمینوں کی جگہ فلک بوس پلازوں نے لے لی ہے ۔آبادی بڑھ گئ ہے ۔ روزگار میں وسعت آگئ ہے ۔ریڑھیاں ختم کر کے بڑے بڑے مالز نے پاؤں پسار لیئے ہیں ۔شہر کے چاروں طرف دریا اور نہروں اور سدا بہار بہتے نالوں نے شہر کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے ۔مگر زیر زمین پانی کی سطح گرتی جا رہی ہے ۔شہر میں تعفن پھیلتا جا رہا ہے ،ملاوٹ ذدہ اور مضرصحت غذا کی وجہ سے شہر کے باسیوں کے رخساروں اور ہونٹوں سے گلابی چمک ماند ہی نہیں پڑی بلکہ چہرے بھی پژمردہ اور مدقوق دکھائی دے رہے ہیں ۔فضاؤں میں آلودگی انسانی پھیپھڑوں پہ حملہ آور ہورہی ہے ۔
انسانوں کے علاوہ ان ٹاہلیوں کی وجہ سے بہت سی چھوٹی چھوٹی دنیائیں بھی آباد تھیں ۔ان تناور اور شاخدار ڈالوں پہ چڑیاں ہر وقت چہچہاتی رہتی تھیں ،ان موٹے تنوں کے اندر بڑے بڑے کھوڑوں میں ابابیلیں پناہ گزیں رہتیں تھیں ۔ خوبصورت دھاریدار گلہریاں اس ٹاہلی سے اس ٹاہلی پہ دوڑتی بھاگتی ،پھدکتی رہتی تھیں ۔ان ٹاہلیوں کے دیوقامت جسموں پہ چونٹیاں ،کیڑے مکوڑے بڑی ترنگ میں لائینوں اور قافلوں کی شکل میں چلتے رہتے تھے اور ان ٹاہلیوں کی جڑوں میں موجود کھوڑوں میں مشکل وقت کے لیئے اپنی خوراک ذخیرہ کرتے رہتے تھے ۔ جب سے ہم نے ان ٹاہلیوں کا نام و نشان مٹا کر ان چھوٹی چھوٹی دنیاؤں کو اجاڑ دیا ہے تب سے بے چینی اور بے سکونی نے ہمارے دلوں کو اجاڑ کے رکھ دیا ہے ۔کتنے سالوں بعد جا کے ہم پہ یہ راز کھلا کہ چھوٹی چھوٹی دنیاؤں کو اجاڑنے والے ۔۔بھلے شہنشاہ ہند اورنگ زیب ہی کیوں نہ ھوں ان کی سرائیں بھی بالاخر اجڑ کے رہتی ہیں ۔ کل کے چھوٹے قصبوں کی جگہ، آج کے گنجان آباد بڑے شہروں کی کہانی بھی بس سرائے عالمگیر جیسی ہی ہے ۔