مکالم
عورت گاڑی کیوں چلائے ؟
قرۃالعین شعیب : عماد قاصر
منافقت ہمارے معاشرتی رویوں میں اس قدر رچ بس گئ ہے کہ یہ صحت مند اور توانا سوچوں کو نگلنے لگی ہے ۔ دیکھیں کتنی منافقت ہے کہ کھیتوں میں ہل چلاتی ، فصل بوتی ، فصل کاٹتی ، اور کٹائی کے بعد زمین پر گر جانے والی فصل کو سمیٹتی ، جانوروں کے گوبر کی پاتھیاں بناتی ، گھروں اور چھتوں کی لپائی کرتی، جانوروں کو چارہ ڈالتی ، ان کا دودھ دوہتی عورت تو معاشرے کے مرد کو قبول ہے۔ لیکن خودمختار ، نوکری کرتی یا گاڑی چلاتی عورت قبول نہیں۔ ماضی کی نسبت پاکستان میں عورتوں پر بڑھتے تشدد اور قتل کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس ظلم کے جہاں بہت سےدیگر عوامل ہیں وہیں عورت کو مرد سے کمتر سمجھنے کی سوچ بہت اہم عمل ہے۔ عماد آپ بھی سفر کرتے ہیں بہت سی خواتین گاڑی چلاتی ہیں۔ آپ نے مردوں کے عورت سے رویے کا ضرور مشاہدہ کیا ہو گا۔ بطور خاتون ڈرائیور میں روزانہ ان رویوں کو دیکھتی ہوں ، سہتی ہوں۔ آپ مرد ہیں آپ دیگر مردوں کی سوچ کی بہتر عکاسی کر سکتے ہیں۔ اس لیے آج کے مکالم میں ہم مل کر کوشش کریں گے کہ ہم دونوں کے رویوں اور مسائل کی عکاسی اور درست نشاندہی کرنے میں کامیاب ہو سکیں ۔
یہ بات سو فی صد درست ہے کہ ہمارا معاشرہ ہر لحاظ سے منافق ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے مردوں کی اکثریت یہ مانتی ہے کہ عورت مرد سے ہر لحاظ سے کمتر و کمزور ہے اور اسے صرف گھر کی حد تک ہی محدود رہنا چاہیے ۔ اکثر مرد خود مختار عورت کو باعث عزت بھی نہیں سمجھتے ۔ خود مختار عورت ہمارے معاشرے کے مرد کو ہضم نہیں ہوتی ۔ سو اب اگر ایسی سوچ کا حامل شخص کسی خاتون کو گاڑی چلاتے دیکھے گا تو اس کے لاشعور میں خواتین کے لیے بیٹھی یہ بات اس صورت میں ظاہر ہوگی کہ وہ اسے برا ڈرائیور سمجھے گا اور کہے گا بھی۔ وہ درست گاڑی بھی چلا رہی ہو گی تو اس کی تضحیک یا تذلیل کرے گا۔
اب اگر بالفرض وہ خاتون کوئی اشارہ توڑ دیں یا گاڑی غلط پارک کر دیں یا ان کی گاڑی سے کسی دوسری گاڑی کو کوئی ٹکر لگ جائے تو وہاں موجود مردوں کی اکثریت عورت کا ساتھ نہیں دے گی۔ قرۃالعین میرا مشاہدہ ہے کہ سڑک پر پچاس گاڑیوں میں سے دو یا تین گاڑیاں خواتین چلا رہی ہوتی ہیں۔ اور وہ محتاط ڈرائیور ہوتی ہیں۔ زیادہ تر حادثات مرد حضرات کے اوور کانفیڈینس کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد ٹریفک کے چیف ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ خواتین بہترین ڈرائیور ہوتی ہیں ان کی وجہ سے ٹریفک کے حادثات کی شرح بہت کم ہے جب کہ مرد محتاط ڈرائیور نہیں ہوتے اور وہ ٹریفک حادثاث کا زیادہ سبب بنتے ہیں ۔ عورت چونکہ محتاط ہو کر گاڑی چلاتی ہے۔ اس لیے مرد اس پر ڈرپوک کا لیبل لگا دیتے ہیں۔یہ میرا مشاہدہ ہے۔ آپ کو بھی ایک خاتون ڈرائیور کے طور پر کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔
بلکل ایسا ہی ہے۔ ایک عورت ہونے کے ناطے مجھے سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے جس تکلیف کا سامنا ہے۔ اس میں بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص جان بوجھ کر میری گاڑی کے آگے اپنی گاڑی لگا دیتا ہے اور اسے سلو چلانے لگتا ہے۔ میں جب اسے کراس کرنے کی کوشش کروں تو راستہ بھی نہیں دیتا۔ کبھی کوئی جان بوجھ کر میری گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی لگا دیتا ہے اور ہارن پر ہاتھ رکھ دیتا ہے۔ یہ ہارن والا معاملہ تو آئے روز پیش آتا ہے۔ کچھ لوگ جان بوجھ کر بار بار اورٹیکنگ کرتے ہیں۔ موٹر سائیکل والے کوئی نہ کوئی جملہ کس کر گزر جاتے ہیں۔ اور کہیں کسی مارکیٹ میں آپ نے گاڑی کھڑی کی ہے تو بھی گزرتے ہوئے مردحضرات ذہنی غلاظت کا تعفن ضرور پھیلا کر جاتے ہیں۔ کچھ مرد تو انتہائی نا زیبا اشارے کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ گاڑی میں بیٹھی عورت قابل عزت نہیں ۔ ان کا یہ عمل سراسر بد اخلاقی ، بد تہذیبی اور ہراسانی ہے۔ اب تو مرد اتنے بے باک ہو چکے ہیں کہ وہ اس بات کی شرم تک نہیں کرتے کہ کسی خاتون کے ساتھ مرد بیٹھا ہوا ہے۔ جہاں ہم مردوں کی بات کر رہے ہیں کہ ان کا رویہ خواتین کے ساتھ ایسا ہے ، وہیں ہمارے معاشرے کی عورت بھی بہت ظالم ہے۔ یہ سڑکوں پر چلتے پھرتے مرد اسی عورت کی گود سے تربیت پا کر نکلے ہیں۔اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں ۔۔۔ ابھی چند دن پہلے ایک عزیز کی طرف سے واپسی پر میرے شوہر تھکے ہوئے تھے تو انہوں نے کہا واپسی پر آپ ڈرائیو کرنا۔ تو ہماری عزیزہ کہنے لگیں کہ ہائے اچھا تھوڑی لگے گا مرد بیٹھا ہو ساتھ اور عورت گاڑی چلائے ۔۔۔۔ یہ سوچ ۔۔۔۔ یہ ہی سوچ سارے فساد کی جڑ ہے۔ گاڑی ایک ضرورت ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے عیاشی بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ایک ضرورت کی چیز یا سہولت کو بھی مرد اور عورت میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اور سمجھا جاتا ہے کہ عورت کا گاڑی چلانا مردانیت کی تذلیل ہے۔
واقعی مرد کے اس رویے کے پیچھے کہیں نہ کہیں ماں کی تربیت بھی ہے ۔ جو خواتین پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہوئے سفر کرتی ہیں ان کے پاس ہراساں کرنے کے اور طرح کے مسائل کی بہتات ہوتی ہے۔ جو اپنی ٹرانسپورٹ استعمال کرتی ہیں ان کو بلاوجہ بدتمیزی کرنا ، دھکمی دینا، گاڑی کا پیچھا کرنا ، اوور ٹیکنگ کرنا ، پیچھے سے ہارن بجانا، نا مناسب جملے کسنا ، گالی دینا، راستہ نہ دینا ، غیر اخلاقی اشارے کرنا ، گاڑی کا شیشہ کھلا ہو تو نمبر پھینکنا جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض مقامات پر رات گئے کسی عورت کی گاڑی خراب ہو جائے اور وہ تنہا ہو تو اس کے لیے کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے۔ موٹروے پر ہوئے واقعہ کے بعد خواتین رات کے سفر سے خوف کھانے لگی ہیں۔ جو خواتین گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے دن دیہاڑے مردوں کے اس معاشرے میں محفوظ نہیں وہ عورت رات کے وقت کیسے محفوظ رہ سکتی ہے ؟
یہ بات درست ہے کہ پاکستانی عورت خواہ پیدل ہو ,پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرے ، موٹر سائیکل پر یا اپنی گاڑی میں اسے ہراسانی کا سامنا ہے۔ لیکن اس ہراسانی کو ختم ہونا چاہیے۔ عورت مرد سے کسی طرح کم نہیں ۔۔۔ہمارے معاشرے کے مرد کو وقت کی ضرورت کو سمجھنا چاہیے۔ عورتیں مجبوری میں گاڑی چلاتی ہیں۔ انہیں مہنگائی کے اس دور میں اپنے گھر کا سرکٹ چلانے کے لیے اپنے شوہرکا دست و بازو بننا پڑ رہا ہے۔ کئی عورتیں جن کے شوہر باہر کے ملکوں میں مقیم ہیں وہ اپنے شوہروں کی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ بچوں کو سکول چھوڑنا لینا اور ان کے دیگر معاملات اور ضروریات زندگی کے لیے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ جن خواتین کے شوہر صبح دفتر جاتے ہیں اور ان کے دفاتر کے اوقات اور بچوں کے سکول کے اوقات میں فرق ہے۔ ان ماؤں کو بھی بچوں کو لانے اور لے جانے کے لیے گاڑی استعمال کرنی پڑتی ہے۔ بہت سی خواتین ایسی ہیں جن کے گھر میں کوئی مرد نہیں ہے۔ گھر کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ہے۔ کئی خواتین بیوہ ہیں۔ اور بہت سی خواتین کو گاڑی اس لیے بھی چلانی پڑتی ہے کہ بہت سے علاقوں میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ گاڑی ایک ضرورت ہے۔ یہ خواتین جو سڑکوں پر گاڑی چلا رہی ہیں یہ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ ان کی تکریم کریں۔ انہیں موقع نہیں اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ ان کی عزت کریں۔ گاڑی چلانا ایک ہنر ہے۔ ہنر کوئی بھی سیکھ سکتا ہے۔ جب مرد کپڑے سی سکتے ہیں۔ کھانا بنا سکتے ہیں تو عورت گاڑی کیوں نہیں چلا سکتی ؟ خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ مضبوط بنیں۔ اور اپنے بیٹوں کی تربیت میں عورت کو عزت دینا لازمی شامل کریں ۔ تاکہ ہم ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دینے میں کامیاب ہو سکیں جہاں ہماری بیٹیاں محفوظ رہ سکیں۔
ایسی کسی صورت حال میں خواتین کو چاہیے کہ ان کے پاس موبائل ہیں وہ سڑک پر ہراساں کرنے کی وڈیو بطور ثبوت بنا سکتی ہیں۔ اور گاڑی کا نمبر نوٹ کر سکتی ہیں۔ اسے رپورٹ کر سکتی ہیں۔ بہت سی خواتین خاموشی کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ کیونکہ انھیں گھر کے مردوں سے ہی تعاون نہیں ملتا۔ لہذا اپنے لیے خود آواز بلند کریں۔ اس سے دوسروں کو بھی حوصلہ ملے گا۔ اور آواز بلند کرنے سے یقیناً ہراساں کرنے والوں کی آواز کو دبایا جا سکتا ہے۔ مندرجہ ذیل قوانین ملک میں ہراساں کرنے کے واقعات میں کمی کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ خواتین کو ان سے آگہی ہونی چاہیے
پاکستان پینل کوڈ 1860 کی دفعہ 510: اگر کوئی شرابی کسی عوامی مقام پر نمودار ہوتا ہے، جس سے کسی شخص کو تکلیف ہوتی ہے، تو اسے قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
پاکستان پینل کوڈ 1860 کی دفعہ 509: اگر کوئی شخص کسی عورت کو لیبل کرتا ہے، کوئی توہین آمیز لفظ کہتا ہے، یا ناگوار اشارے کرتا ہے، تو وہ تین سال کی سزا کا مرتکب ہوگا یا جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
پاکستان پینل کوڈ 1860 کی دفعہ 366A: اگر 18 سال سے کم عمر لڑکی کو جنسی تعلقات پر مجبور کیا جائے تو مجرم کو 10 سال کی سزا اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان پینل کوڈ 1860 کی دفعہ 509: اگر کوئی شخص جنسی خواہشات کا مطالبہ کرتا ہے اور بات چیت زبانی یا غیر زبانی شکل کا استعمال کرتا ہے، جس سے کسی قسم کی پریشانی ہوتی ہے، تو وہ شخص تین سال کی سزا یا جرمانہ یا دونوں کا ذمہ دار ہے۔
پاکستان پینل کوڈ 1860 کی دفعہ 509: اگر کوئی شخص کسی عورت کے خلاف زنا کا جھوٹا الزام لگاتا ہے تو اسے جرمانے کے ساتھ پانچ سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
پاکستان پینل کوڈ 1860 کی دفعہ 354A: اگر کوئی شخص فوجداری طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کسی عورت پر حملہ کرتا ہے، اس کے کپڑے اتارتا ہے اور اسے عوام کے سامنے بے نقاب کرتا ہے، تو اسے جرمانے کے ساتھ سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
پاکستان پینل کوڈ 1860 کی دفعہ 294: اگر کوئی شخص کسی عوامی مقام پر کسی بھی قسم کی ناشائستہ یا نازیبا زبان استعمال کرتا ہے تو وہ جرم کے ساتھ تین سال کی سزا کا مستحق ہے۔