22 اکتوبر 1964ء کو ژاں پال سارتر نے نظریات اور اصولوں کی بنیاد پر ادب کا نوبل انعام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نےسویڈن کےاخبارکولکھےاپنےایک خط میں اس فیصلے کی وجوہات بیان کیں جس کا فرانسیسی ترجمہ لی فیگارو اور لی موند نامی فرانسیی اخبارات میں شائع ہوا۔
24 اکتوبر 1964ء کو لی فیگارو میں چھپنے والا مضمون
—————————-—–
جمعرات کی شام ژاں پال سارتر نے اپنے سویڈش ناشر بونئیے کے نمائندے کے ہاتھوں سٹاک ہولم کےاخبارات کو اپنا ایک بیان بھجوایا۔ سویڈش زبان میں ترجمہ شدہ یہ بیان چونکہ فرانسیسی اخبارات میں شائع ہونے کے لئے دوبارہ واپس فرانسیسی زبان میں ترجمہ ہوا اس لئے متن میں کچھ تبدیلیاں بعید از قیاس نہیں ہیں۔
متن
"مجھے افسوس ہے کہ یہ معاملہ ایک سکینڈل کی شکل اختیار کر گیا ہے : مجھے ایک انعام دیا گیا تھا اور میں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ مجھے وقت پر معلوم نہ ہو پایا کہ کیا ہو رہا ہے۔ 15 اکتوبر کے لی فیگارو ادبی ایڈیشن میں جب میں نے مذکورہ اخبار کے سویڈش نامہ نگار کی تحریر پڑھی کہ سویڈش اکادمی کے سامنے میرا نام بھی زیرِ غور ہے (لیکن ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں ہو پایا ہے) میرا خیال تھا کہ اگر میں اس موقع پر سویڈش اکادمی کو ایک خط لکھوں، جو کہ میں نے دوسرے ہی روز ارسال کر دیا تھا، تو میں اپنا نکتہِ نظر سامنے لا پاؤں گا اور معاملہ وہیں ختم ہو جائے گا۔
مجھے معلوم نہ تھا کہ نوبل انعام کے فیصلے میں نامزد فرد کی رائے مدّنظر نہیں رکھی جاتی اور میں سمجھا کہ ابھی اس نامزدگی کو روکا جا سکتا تھا۔ لیکن اب مجھے علم ہوا کہ سویڈش اکادمی جب انتخاب کا فیصلہ کر لیتی ہے تو اسے منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔
جیسا کہ میں سویڈش اکادمی کو اپنے خط میں بیان کر چکا ہوں، نوبل انعام سے دستبرداری کے اس فیصلے کا تعلق سویڈش اکادمی سے ہے اور نہ ہی بذاتِ خود نوبل انعام سے۔ اس خط میں میں نے دو قسم کی وجوہات بیان کی ہیں: ذاتی وجوہات اور معروضی وجوہات۔
ذاتی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں : انعام سے میرا انکار ایک برجستہ اقدام نہیں ہے۔ میں نے ہمیشہ سرکاری اعزازات کو رد کیا ہے۔ 1945 میں جنگ کے بعد جب مجھے لیژیاں دآنر (1) کے لئے نامزد کیا گیا تو حکومت کے ساتھ خیرسگالی کے جذبات پر مبنی تعلقات کے باوجود میں نے انکارکر دیا۔ اسی طرح، اپنے متعدد احباب کے مشورے کے باوجود میں نے کبھی ‘کالج ڈی فرانس’ (2) سے منسلک ہونے کی خواہش نہیں کی۔
میرے اس روّیے کی بنیاد ایک مصنّف کے کام سے متعلق میرے نکتہِ نگاہ پر ہے۔ کسی بھی سماجی، سیاسی اور ادبی نظرئیے کے حامل ایک مصنّف کو صرف اپنے ہی ذرائع و اسباب سے استفادہ کرنا چاہئِے، یعنی اپنا قلم اور اپنی تحریر۔ اس پر نچھاور کئے جانے والے تمام اعزازات اس کے قاری پر ایسا دباؤ ڈالتے ہیں جو میرے خیال میں ناقابلِ قبول ہے۔ میرے نزدیک ‘ژاں پال سارتر’ اور ‘ژاں پال سارتر، نوبل انعام یافتہ’ میں بہت فرق ہے۔
جو ادیب یا مصنف اس طرز کا اعزاز قبول کرتا ہے وہ خود کو یہ اعزاز دینے والے ادارے یا انجمن سے منسوب کرلیتا ہے: وینیزوئیلا کے کسانوں کے لئے میری حمایت صرف میری ذات تک محدود ہے جبکہ نوبل انعام یافتہ ژاں پال سارتر اگر اس احتجاجی تحریک کی حمایت کرتا ہے تو وہ اپنے ساتھ نوبل انعام کو بطور ادارہ بھی اس میں ملوث کرلیتا ہے۔
یوں ادیب کو اپنی ذات کو ایک ادارے میں تبدیل ہونے سے بچانا چاہئیے، چاہے اس تبیدلی کے پس منظر میں وجوہات کتنی ہی واجبِ التعظیم ہی کیوں نہ ہوں، جیسا کہ اس معاملے میں ہے۔
یقیناً یہ روّیہ مکمل طور پر میرا ذاتی برتاؤ ہے اور اس سے ان افراد پر قطعاً کوئی اعتراض مقصود نہیں ہے جنہیں اس سے پہلے اس اعزاز سے نوازا جا چکا ہے۔ ان انعام یافتہ افراد میں سے متعدد شخصیات کو ذاتی طور پر جاننا میرے لئے باعث افتخار ہے اور میرے دل میں ان کے لئے قدرومنزلت اور تحسین و ستائش کے جذبات ہیں۔
دوسری جانب اس انکار کی معروضی وجوہات یہ ہیں :
فی الوقت ثقافتی محاذ پر جو واحد جدوجہد ممکن ہے وہ مشرق اور مغرب کے درمیان پرامن ہم عہدی کا حصول ہے۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ایک کچھ بھول بھال پر ایک دوسرے میں ضم ہو جائیں؛ میں جانتا ہوں کہ ان دونوں کے درمیان مقابلے کو لازماً ایک کشمکش کی صورت اختیار کرنا ہو گا، لیکن یہ کشمکش افراد اور ثقافتوں کے درمیان ہونی چاہئیے جس میں اداروں کی کوئی مداخلت نہ ہو۔
ذاتی طور پر مجھے ان دونوں ثقافتوں کے درمیان تضاد و اختلاف کا دلی طور پر احساس ہے: میرے خیالات کی بنیاد انہی اختلافات پرکھڑی ہے۔ لامحالہ میری ہمدردیاں سوشلزم سے جڑی ہیں یا جسے مشرقی بلاک کہتے ہیں، لیکن میری پیدائش اور تعلیم و تربیت ایک بورژوا خاندان اور ایک بورژوا تہذیب میں ہوئی ہے۔ اس سے مجھ میں ایسے تمام عناصر سے تعلق استوار کرنے کا رجحان پیدا ہوا جو ان دونوں ثقافتوں کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں۔ تاہم میں یقیناً امید کرتا ہوں کہ ان دونوں میں ‘بہتر’ یعنی کہ سوشلزم کی جیت ہو۔
یہی وجہ ہے کہ میں کسی مشرقی یا مغربی اعلیٰ ثقافتی ادارے کی جانب سے کوئی اعزاز قبول نہیں کر سکتا اگرچہ میں ایسے اداروں کے وجود و ظہور کو بخوبی سمجھتا ہوں۔ میری تمام تر ہمدردیاں سوشلزم کی حمایت میں ہونے کے باوجود اگر کبھی کوئی مجھے لینن انعام سے نوازنا چاہے، جس کا ابھی تک موقع نہیں آیا، تو میں خود کو اسے قبول کرنے سے بھی قاصر پاؤں گا۔
میں بخوبی جانتا ہوںکہ اپنی موجودہ ہئیت میں نوبل انعام مغربی بلاک کا ادبی انعام نہیں ہے لیکن وہ جیسا بھی ہے، حالات ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو سویڈش اکادمی کے ارکان کے فیصلوں کے مطابق نہ ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں معروضی طور پر نوبل انعام ایک ایسے اعزاز کے طور پر سامنے آتا ہے جو صرف مغربی لکھاریوں یا مشرقی باغیوں کے لئے مخصوص ہے۔ مثلاً یہ اعزاز نیرودا کے حصّے میں نہیں آیا جس کا شمار جنوبی امریکہ کے عظیم ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ کبھی سنجیدگی سے لوئی آراگون پر بھی غور نہیں کیا گیا جو اس اعزاز کا یقیناً حقدار ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ اعزاز شولوکوف سے پہلے پاسٹرناک کو دیا گیا، یا واحد روسی شاہکار جسے یہ انعام دیا گیا وہ روس میں شائع نہیں ہوا جہاں اس پر پابندی لگی۔کسی قسم کا توازن برقرار رکھںے کے لئے کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ الجیریا کی جنگ کے دوران جب ہم نے "قراردادِ 121” پر دستخط کئے تو میں یہ انعام بخوشی قبول کر لیتا کیونکہ یہ اعزاز نہ صرف میرے لئے ہوتا بلکہ ان لوگوں کی آزادی کے لئے بھی جن کی خاطر ہم جنگ لڑ رہے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور مجھے یہ انعام جنگ کے خاتمے کے بعد دیا گیا۔
سویڈش اکادمی کی توجیہات میں آزادی کا ذکر بھی کیا گیا: لیکن یہ لفظ مختلف تشریحوں کا حامل ہے۔ مغرب میں اس سے محض ایک عمومی آزادی کا معنی اخذ کیا جاتا ہے۔ جبکہ میرے نزدیک اس لفظ کا معنی ایک سے زیادہ جوتوں کے جوڑے کی ملکیت یا پیٹ بھر کر کھانے کے حقوق سے کہیں زیادہ ٹھوس ہے۔ مجھے اس اعزاز کو مسترد کرنا اسے قبول کرنے سے کہیں کم خطرناک لگتا ہے۔ اسے قبول کرنا میرے نزدیک ایک ایسا امر ہے جسے میں "ظاہری منفعت” کہوں گا۔ میں نے فیگاروؔ کے ادبی ایڈیشن میں ایک مضمون میں پڑھا ہے کہ "مجھ پر متنازعہ سیاسی ماضی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا”۔میں جانتا ہوں کہ یہ مضمون اکادمی کے خیالات کی ترجمانی نہیں کرتا لیکن اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس اعزاز کو میرا قبول کرنا دائیں بازو کے کچھ عناصر کی نگاہوں میں کیسے دیکھا جائے گا۔ میں اس "متنازعہ سیاسی ماضی” کو آج بھی درست جانتا ہوں حالانکہ آج میں اپنے ساتھیوں کی جانب سے ماضی کی کچھ غلطیوں کو ماننے پر تیار ہوں۔
میرا کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نوبل انعام ایک "بورژوا” اعزاز ہے لیکن یہ ایک ایسی تشریح ہے جو کچھ ایسے حلقے پیش کریں گے جنہیں میں خوب جانتا ہوں۔
آخر میں میں انعامی رقم کے ذکر پر آتا ہوں۔ اس اعزاز کے ساتھ اس بڑی رقم کو منسلک کرتے ہوئے اکادمی انعام یافتگان کے کاندھوں پر ایک بھاری بوجھ لاد دیتی ہے اور یہی مشکل مجھے کشمکش میں ڈالے رہی ہے۔ یا تو میں یہ اعزاز قبول کر لیتا اور اس کے ساتھ دی جانے والی رقم سے میں اپنے خیال میں اہم کام کرنے والی تنظیموں یا تحریکوں کو مالی تعاون فراہم کر سکتا۔ اس سلسلے میں لندن میں سرگرم اپارتھائڈ (نسلی عصبیت) کمیٹی کا نام میرے ذھن میں تھا۔
اس کے برعکس میں اپنے عمومی اصولوں کی بنیاد پر اس انعام سے دستبردار ہو جاتا اور ان تحریکوں یا تنظیموں کو اس تعاون سے محروم کر دیتا جس کی انہیں اشد ضرورت ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک مصنوعی مشکل ہے۔ میں ان اڑھائی لاکھ کرونا کو اس لئے ٹھکرا رہا ہوں کہ میں خود کو مغرب میں یا مشرق میں کسی بھی ادارے سے منسوب نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن یہ مطالبہ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اڑھائی لاکھ کرونا صرف ان اصولوں کی بنا پر ٹھکرا دئیے جائیں جو صرف میرے نہیں ہیں بلکہ جو ہم سب ساتھیوں میں قدرِ مشترک ہیں۔
اسی وجہ سے اس انعام کے لئے میری نامزدگی اور انکار کرنے پر میری مجبوری میرے لئے اتنا باعثِ تکلیف امر ھے۔
اس بیان کےاختتام پر میں سویڈش عوام کے لئے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کرتا ہوں۔
حواشی:
——
(1) لیژیاں دآنر (Légion d’Honneur) —— عسکری اور معاشرتی شعبہ جات میں کارہائے نمایاں انجام دینے پر تفویض کردہ فرانس کا عظیم ترین اعزاز؛ تاریخِ اجرا 1802ء
(2) کالج ڈی فرانس —— 1530ء میں قائم کردہ یہ ادارہ فرانس کا اعلیٰ ترین تحقیقی ادارہ مانا جاتا ہے۔ کسی بھی فرد کا اس ادارے سے بطور اعزازی پروفیسر الحاق فرانس میں تحقیقی اور تعلیمی شعبے میں اعلیٰ ترین منصب سمجھا جاتا ہے۔
مترجم کا تعارف:
شوکت نواز نیازی (پیدائش: 19 نومبر 1962ء، راولپنڈی) ممتاز مزاح نگار، ادیب اور مترجم ہیں۔ اب تک بیس سے زائد فرانسیسی اور انگریزی ادب کے اردو تراجم کرچکے ہیں۔ فرانسیسی ادب کو براہِ راست فرانسیسی زبان سے ترجمہ کرتے ہیں۔ نمایاں تراجم میں موپاساں کے افسانے اور ناولٹ، ژاں پال سارتر کا ناول "متلی”(La Nausée) اور ڈرامے، ایف سکاٹ فٹزجیرلڈ کا ناول "گیٹسبی” (The Great Gastby)، ہارپر لی کا ناول "معصومیت کا قتل ” (To Kill A Mockingbird)، ولیم گولڈنگ کا ناول "مکھیوں کا دیوتا”(Lord of the Flies) وغیرہ شامل ہیں۔
آپ سے رابطہ اس ای میل کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔
shaukatniazi@yahoo.com