سکول کے بچوں کو سپورٹس ڈے کے حوالے سے پارک لے جانا تھا کیونکہ بچوں من کے سچوں کے لیے سکول کی گراؤنڈ چھوٹی تھی۔ اتنے سارے بچوں کو لے جانے کے لیے سکول والوں نے راجا بَس کا انتظام کروایا۔
سب کو بٹھا کر باری آئی اساتذہ کی تو بیٹھنے کو جگہ نہیں تھی اور یہاں اساتذہ نے ماؤں والا کردار خوب نبھایا۔ جیسے ماں خود کو بے آرام کر کے بچوں کو آرام پہنچاتی ہے ویسے ہی ایک استاد بھی آپ کو ماں کا کردار نبھاتا نظر آئے گا۔
اتفاق سے ایک بچے کے پاس مجھے تھوڑی سی جگہ مل گئی۔ میں بچوں کو بار بار گننے اور اچھا بچہ بننے کی نصیحتیں کرنے کے بعد اسی تھوڑی سی غیر آرام دہ جگہ پر بیٹھ گئی۔ بَس ابھی چلنا شروع ہوئی تو میں نے سوچا :
کیوں نہ آج کھڑے ہو کر سفر کرنے کا تجربہ کیا جائے کیا پتہ کچھ سیکھنے کو مل جائے ؟ چنانچہ میں اپنی نشست چھوڑ کر کھڑی ہو گئی۔ چلتی بَس میں کھڑے ہو کر مجھے ایسے لگا جیسے دھرتی ماں زلزلے سے کانپ رہی ہو کیونکہ بس ابھی سیدھی صاف سڑک پر نہیں چڑھی تھی اس لیے ہچکولے کھا رہی تھی۔ اس دوران آپ کو اپنا توازن برقرار رکھنا پڑتا ہے۔ اگر نہیں رکھیں گے تو دائیں بائیں بیٹھے لوگوں پر گر کے شرمسار ہوں گے۔
مجھے بھی اپنا توازن برقرار رکھنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ کیونکہ پہلا تجربہ تھا۔ کچھ بعید نہ تھا کہ میں بھی لڑکھڑا کر دوسروں پر گرتی۔ جی میں آیا تھوڑی سی جگہ جو ملی ہے اسے غنیمت جانتے ہوئے بیٹھ جاؤں۔ لیکن میرے لیے بیٹھ جانا خود سے ہار جانے کے مترادف تھا۔ انسان کو مقابلہ بھی دوسروں سے نہیں خود سے کرنا چاہئیے دوسروں سے مقابلہ کریں گے تو ہار جائیں گے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
اس لیے میں نے سختی سے اپنے ہاتھ سیٹوں کے اوپر دائیں بائیں لگی ریلنگز پر جمائے۔ ہمت مرداں مدد خدا کے تحت اپنے قدموں پر بس کے سخت فرش پر مضبوطی سے کھڑی رہی۔ چند لمحے ہی سرکے تھے کہ مجھ پر سوچ کا ایک در وا ہوا کہ ہماری زندگی بھی تو اس بس کی طرح ہے جہاں کہیں بے ڈھبا راستہ آتا ہے۔ ہچکولے کھانے لگتی ہے ایسے میں ہمیں مضبوط بن کر اپنا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے وگرنہ ہم دائیں بائیں لوگوں پر گرتے رہیں گے اور شرمسار ہوتے رہیں گے انسان کتنا ہی بڑا ہو جائے گِرنا اسے فطرتی طور پر شرمسار کر ہی دیتا ہے۔ گِرنا بری بات نہیں ہے گِر کر ” نہ ” اٹھنا بہت ہی بری بات ہے۔ جانتی ہوں” کہنا "آسان ہوتا ہے۔ "کرنے "میں لگ پتہ جاتا ہے لیکن اللّٰہ جی قرآن میں فرماتے ہیں:
” بیشک اللّٰہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے "
عموماً اعصابی طور پر کمزور لوگ ہی زندگی کی تلخیوں سے گھبرا کر بس ڈھے جاتے ہیں۔ لومڑی کی طرح انگور کھٹے ہیں کہہ کر ہمت ہار جاتے ہیں۔ جیسے مجھے لگا میں کھڑی نہیں ہو سکتی۔ مجھے بیٹھ ہی جانا چاہیے۔ لگتا تھا میں اب گری کہ اب۔
لیکن آپ ہمت کی ریلنگ پر سختی سے اپنے ہاتھ رکھیں گے اور صبر وحوصلے کی زمین پر اپنے پاؤں مضبوطی سے جمائیں گے تو زندگی کے خراب لڑکھڑاتے راستے سے آپ گھبرائیں گے نہیں۔بلکہ اپنے آپکو مضبوط بنائیں گے۔ پھر آپ چاہے جتنے بھی کمزور ہوں خود کو گرنے نہیں دیں گے۔ انشاء اللہ