fbpx
بلاگ

خواجہ سرا اور پراپیگنڈہ / ثاقب قریشی

پراپیگنڈہ کا مطلب ایسی سچی، چھوٹی معلومات جس کو منظم طریقے سےپھیلایا جائے۔ پھیلانے کے بعد اپنی مرضی کی عوامی رائے قائم کی جائے۔پھر رائے کو اپنے مزموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے۔ خواجہ سراء ہمارے
معاشرے کا پسا ہوا طبقہ ہے میرے جیسے معمولی لوگ انھیں برابری کےحقوق دلوانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ تو دوسری طرف کچھ معتبر شخصیات خواجہ سراؤں کے خلاف پراپیگنڈہ کر رہی ہیں۔پراپیگنڈے کی طاقت سچائی کی طاقت سے کہیں ذیادہ ہوتی ہے کیونکہ ہم بھلائی عام کرنے کیلئے صرف سچ کا سہارا لیتے ہیں جبکہ منفی قوتیں ہر قسم کے بے بنیاد الزامات کا سہارا لے کر اپنی بات سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتیں ہیں۔خواجہ سراء کیونکہ مظلوم اور محروم ترین کمیونٹی ہے۔ اس مختصر سی
کمیونٹی میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ لوگ ہم سے لڑ تو نہیں سکتےاسلیئے اپنا سارا غصہ ایک دوسرے پر نکال دیتے ہیں۔ شدید احساس محرومی کی وجہ سے یہ ایک دوسرے پر ایسے ایسے الزامات لگا دیتے ہیں کہ انسان
حیران رہ جاتا ہے۔گزشتہ برس میں نے اسلام آباد کے ایک مشہور خواجہ سراء کا انٹریو کیا۔ پھراگلے انٹرویو کیلئے دوسرے خواجہ سراء کی تلاش شروع کر دی۔ ایک اور
مشہور خواجہ سراء کا نمبر ملا میں نے اس سے پچھلے انٹرویو کا ذکر کیا تووہ کہنے لگا کہ آپ نے جس خواجہ سراء کا انٹرویو کیا ہے اس کی اصلیت کاعلم ہے۔ میں نے کہا نہیں کہنے لگا اسے ایڈز ہے۔ وہ زمانے سے ایڈز کی
دوائیاں کھا رہا ہے۔ آپ کہیں تو ثبوت منگوا کر دے سکتا ہوں۔کچھ عرصہ بعد خیبرپختون خواہ کے ایک خواجہ سراء کا انٹرویو کرنے کااتفاق ہوا۔ ایک خواجہ سراء نے انٹریو پڑھ کر مجھ سے رابطہ کیا اور کہنےلگا۔ آپ بھی سادے ہیں میں نے کہا کیوں کہنے لگا اس کے دو بچے ہیں۔ یہ ویسے ہی خواجہ سرا بنا پھرتا ہے۔اسی طرح لاہور کی ایک خواجہ سراء جس نے یونیورسٹی میں ٹاپ کیا۔کلاسیکل ڈانس اسکی وجہ شہرت ہے۔ اسکے بارے ایک خواجہ سراء نے کہاکہ اس نے ایل-جی-بی-ٹی والوں سے کروڑوں روپیہ لیا ہوا وغیرہ۔خواجہ سراؤں نے مجھے اپنا خیر خواہ سمجھتے ہوئے اپنے وٹس ایپ گروپس میں شامل کیا ہوا ہے۔ جہاں میں ان کے درمیان چلنے والے بحث مباحثے سن سکتا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے گفتگو کے دوران جب ایک خواجہ سراء کادوسرے کے موقف سے اختلاف ہو جاتا ہے تو یہ ایک دوسرے پر طرح طرح کے سنگین الزامات لگا دیتے ہیں۔ ایسی ایسی گالیاں اور بددعائیں دیتے ہیں جوشائد ہم نے پہلے کبھی نہ سنی ہوں۔ بات ذیادہ بڑھ جائے تو لاہور میں بیٹھاخواجہ سراء کراچی میں بیٹھے خواجہ سراء سے کہتا ہے تو میرے سے چندگھنٹے کی دوری پر ہے۔ میں نے کراچی آکر تیرا وہ حال کرنا ہے کہ پوری دنیا دیکھے گی۔میں جانتا ہوں کہ یہ سب گیدڑ بھبھکیاں ہیں کرنا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ بس لڑجھگڑ کر دل کا بوجھ ہلکا کرنا ہوتا ہے۔ سنگین نوعیت کے بہتان اور الزامات لگانے کی وجہ شائد یہی ہے کہ خواجہ سراؤں کو عام لوگوں سے ذیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انکی احساس محرومی ہم سے کہیں ذیادہ ہے۔ اور وہ اپنی فرسٹریشن ایک دوسرے سے جھگڑ کر نکالتے ہیں۔ جس کی وجہ کم علمی بھی ہے

میں نے خواجہ سراؤں کی بھلائی کیلئے کام کرنا تھا اسلیئے میں نے ان الزامات پر کبھی کان نہیں دھرے بلکہ خاموشی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ خواجہ سراؤں کے حقوق پر اتنا لکھا جتنا شائد پہلے کبھی کسی نے نہیں لکھا۔
راولپنڈی کی مشہور خواجہ سراء جو شائد کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ اس  نے بھر پور زندگی گزاری ہے اور اب گمنامی کی زندگی جی رہی ہیں۔ ان کی جگہ نئے پڑھے لکھے خواجہ سراؤں نے لے لی ہے۔ اسی طرح اسلام آباد سے تعلق رکھنے والا ایک خواجہ سراء  ہے۔ جسے کمیونٹی نے کبھی اہمیت نہیں دی- ان دونوں کی خواجہ سراء کمیونٹی میں کوئی اہمیت نہیں اس لیئے یہ کمیونٹی پر الزامات لگا کر خبروں کی زینت بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاسی شخصیات نے خواجہ سراؤں کے بل کو متنازع بنانے کیلئے ان ہی دوشخصیات کی خدمات حاصل کی ہیں۔ اوریا مقبول جان صاحب نے بھی ایک خواجہ سراء پر کیس کر رکھا ہے وہ بھی خواجہ سراء کمیونٹی پر الزامات کیلئے اسی قسم کے حربے استعمال کرتے رہتے ہیں۔

ناراض خواجہ سراؤں کے سنگیں الزامات کے بعد سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر بیٹھے نام نہاد صحافیوں کو ویڈیوز اور میسیجز بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ ویڈیوز دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں پھیل جاتی ہیں۔ ایسی ویڈیوز
خواجہ سراء کمیونٹی کے خلاف نفرت پھیلانے کا باعث بن رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے تشدد اور قتل کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت پوری کمیونٹی عدم تحفظ کا شکار ہے جس کی وجہ یہ  ویڈیوز ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ کچھ سیاستدانوں اور صحافیوں کو   اپنے موقف کی جنگ قانونی طور پر لڑنی چاہیئے۔ ناراض خواجہ سراؤں کو اپنے ساتھ ملاناپراپیگنڈے کے زمرے میں آئے گا۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے