fbpx
بلاگ

نوکری پیشہ خواتین شوق سے طلاق نہیں لیتیں/ ثاقب قریشی

وطن عزیز میں گزشتہ چند سالوں سے مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ ہماری لوکل انڈسٹری میں تنخواہوں کا تناسب بیس ہزار سے پچاس ہزار کے درمیان ہے۔ پچاس ہزار تنخواہ بھی مینجر لیول کے لوگوں کو دی جاتی ہے۔ ایک درمیانی درجے کی کمپنی دو یا چار مینجرز سے کام چلا لیتی ہے۔ پھر ہمارے ملک میں شہروں میں رہنے والے ذیادہ تر لوگ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ راولپنڈی شہر کی بات کروں تو اسکے گلی کوچوں میں بھی مکان کا کرایہ دس ہزار سے کم نہیں ہے۔ اسی طرح چھوٹے چھوٹے گھروں کا بجلی کا بل بھی تین چار ہزار سے کم نہیں۔ ایک چھوٹی فیملی دن کا ایک کلو دودھ بھی استعمال کرتی ہو تو آجکل دودھ ڈیرھ سو روپے کلو میں ہے۔ اگر بچے ہیں تو پرائیویٹ سکولوں کی فیس دو ہزار روپے سے کم نہیں۔ سرکاری سکولوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ سرکاری سکولوں میں تعلیم کا معیار غیر تسلی بخش ہے۔ آدمی دفتر آنے جانے بچوں کو سکول چھوڑنے کیلئے موٹر سائیکل استعمال کرتا ہے تو پٹرول 240 روپے فی لیٹر ہے۔ کھانا پینا، کپڑے، خوشی غمی، بچوں کے دیگر اخراجات علیحدہ ہیں۔ بیس سے پچاس ہزار کمانے والا شخص آج کے دور میں ایک نوکری سے گزارا نہیں کرسکتا۔ دوسری نوکری ملنا مشکل ہے مل بھی جائے تو اتنا کام مرد کو جلد بوڑھا اور بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔
ایسے میں اگر بیوی بھی مرد کا ساتھ دینا شروع کر دے تو گھرانے کی مجموعی آمدنی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ بچوں کا اچھے سکولوں میں داخل کروایا جاسکتا ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ کچھ بچت بھی کی جاسکتی ہے۔ آج کے دور میں بھی جن گھروں کی خواتین نوکری کرتی ہیں وہ قدر خوشحال تصور کیئے جاتے ہیں۔ لیکن حیرت کی ب ہمارا ات یہ ہے کہ نوکری کرنے والی خواتین میں طلاق کی شرح عام خواتین سے کہیں ذیادہ ہے۔

ہمارا ایک دوست فارما سوٹیکل میں مینجر ہے۔ چند سال قبل اسکی شادی ہوئی۔ لڑکی ڈاکٹر تھی ایمرجینسی وارڈ میں نائٹ ڈیوٹی کرتی تھی۔ لڑکے کی ماں کی خواہش تھی کہ لڑکی نائٹ ڈیوٹی کے بعد ساس کی سیوا اور گھر کے سارے کام بھی کرے۔ شادی کے چند ماہ میں لڑکی ناراض ہوکر میکے چلے گئی خلاء کی درخواست دائر کر دی۔ طلاق لینے کی بعد لڑکی نے ڈاکٹر سے شادی کی اس وقت دونوں بیرون ملک مقیم ہیں۔ ہمارے دوست نے فیصلہ کیا کہ اب وہ نوکری کرنے والے لڑکی سے شادی نہیں کرے گا۔ اسکی شادی ایک نان پروفیشنل لڑکی سے ہوچکی ہے۔ عام سی زندگی گزار رہا ہے۔ جس میں آگے بڑھنے کے امکانات کم ہیں۔
اگر ہمارا دوست اور اسکی والدہ صاحبہ سمجھ سکتیں کہ نائٹ ڈیوٹی کرنے والی لڑکی بھی انسان ہے۔ ہسپتال کے ایمرجینسی وارڈ میں ڈیوٹی کرنا آسان کام نہیں۔ انتہائی نگہداشت میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کو فوری فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اسکے لیئے انکا سمارٹ اور حاضر دماغ ہونا ضروری ہے یہ اسی صورت ممکن ہوسکتا ہے جب ڈاکٹر گھریلو اور دیگر پرشانیوں سے آزاد ہوکر اپنے کام پر توجہ دے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارا دوست اور اسکی والدہ لڑکی کی نوکری کی نوعیت کو سمجھتے، اسکے راستے میں کانٹے بچھانے کے بجائے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے تو شائد یہ گھر بھی آج آباد ہوتا۔ پاکستان میں رہتے ہوئے یہ لوگ ایک آدھ پلاٹ بھی خرید چکے ہوتے یا ملک سے باہر سیٹلڈ ہوتے۔
میری صبح چار بجے سے قبل ہوتی ہے۔ چھ بجے تک پڑھنے لکھنے کا کام کرتا ہوں۔ پھر آدھ گھنٹہ ورزش کر کے ناشتہ کرتا ہوں اور پھر دفتر چلا جاتا ہوں۔ شام چھ بجے تک دفتر سے واپسی ہوتی ہے۔ پھر آدھ گھنٹہ ورزش کرتا ہوں۔ نو بجے اپنے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔ آدھے پونے گھنٹے میں سو جاتا ہوں۔ معذور افراد اور خواجہ سراؤں کے حقوق پر شائد سب سے ذیادہ تحریریں میں نے لکھی ہیں میری تحریروں نے انسانی حقوق کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کردار بھی ادا کیا ہے۔
میں مرد کے بجائے عورت ہوتا تو میری روٹین کچھ یوں ہوتی۔ میں پڑھنے لکھنے کیلئے صبح چار بجے اٹھتی۔اس دوران مجھے بچوں اور شوہر کے کپڑے اور ناشتے کی فکر لگی رہتی۔ لکھنے کے بعد میں بچوں اور شوہر کے کپڑے استری کرتی اور انھیں اٹھانا شروع کر دیتی۔ شوہر تو آسانی سے اٹھ جاتے جبکہ بچوں کو اٹھانا ایک مشکل کام ہے۔ ادھر سے اٹھاؤں گی تو کہیں اور جاکے سو جائیں گے۔ باتھ روم بھیجنے کے دس منٹ بعد بھی دیکھو گی تو وہیں کھڑا پاؤں گی۔ بچوں کو یونیفارم پہننے کیلئے کہوں گی تو ایک کہے گا کہ میرا جوتا کہاں ہے تو دوسرا کہے گا کہ میری جرابیں غائب ہیں۔ ناشتہ سامنے رکھوں گی تو ایک کہے گا کہ مجھے انڈا نہیں پسند تو دوسرا کہے گا مجھے دودھ نہیں پسند۔ سکول بھیجنے کی باری آئے گی تو ایک کی کتابیں کہیں بکھری پڑی ہونگی تو دوسرے کی اور کہیں۔ ان سب کے ساتھ مجھے بھی دفتر کی تیاری کرنی پڑتی ہے۔
دفتر قدم رکھوں گی تو دفتر کے سارے مرد پہلے تو مجھے نیچے سے اوپر تک دیکھیں گے۔ اچھے کپڑے پہن کر جاؤں گی تو کہیں گے کہ پتہ نہیں کس کے لیئے تیار ہوکر آتی ہے۔ کپڑے برے لگے کہیں گے کہ لگتا ہے شوہر سے خوش نہیں ہے۔ پورے دن اٹھتے بیھٹتے مردوں کی نظریں مجھ پر لگی رہیں گیں۔ ان سب کے ساتھ مجھے جینا بھی ہے اور پرفارمنس بھی دینی ہے۔
آٹھ نو گھنٹے ڈیوٹی کے بعد میں گھر پہنچوں گی۔ گھر پہنچنے کے بعد مجھے شام کا کھانا بھی پکانا ہے۔ بچوں کا ہوم ورک بھی کروانا ہے اور شوہر کی سیوا بھی کرنی ہے۔ ان سب چیزوں کے ساتھ مجھے کپڑے بھی دھونے ہیں اور گھر بھی چمکانا ہے۔ ورنہ ہر آتا جاتا بندہ کہے گا کہ کتنی بے ترتیب عورت ہے۔ بچہ بیمار ہو یا امتحانات میں کم نمبرز لے تب بھی ذمہ داری میری ہی ہوگی۔
اگر فیملی میں ساس اور نندیں بھی ہوں تو پھر تو عورت کا جینا محال ہو جاتا ہے۔ ہمارے ملک کی عمر رسیدہ خواتین ذیادہ تر ناخواندہ ہیں ۔ ایسی ساسیں جنھوں نے زندگی میں کبھی نوکری نہیں کی۔ وہ نوکری کرنے والی لڑکیوں کے مسائل سے ناواقف ہوتی ہیں۔
ساسیں پڑھی لکھی ہوں یا ناخواندہ ہر مسئلے کو غنیمت جانتے ہوئے بیٹے کی نظر میں بہو کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ بہو کی ہر بات کو بڑھا چڑھا کر بتانا، کوئی مسئلہ نہ بھی ہو تو خود سے چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بنا دینا روائیتی ساسوں کی روز مرہ کی عادات کا حصہ ہوتی ہیں۔
مرد بھی ایسے موقعوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیوی کو ہی غلط ثابت کرکے اپنی حاکمیت مضبوط کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہم چونکہ پروفیشنل قوم نہیں ہیں اس لیئے اکثر مرد حضرات نوکری کرنے والی بیگمات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے موبائل فونز اور پرسنل چیزوں میں وقت برباد کرتے رہتے ہیں۔
نوکری کرنے والی خواتین میں طلاق کی شرح اسی وجہ سے ذیادہ ہوتی ہے کہ شوہر اور سسرال والے انکے مسائل کو سمجھ نہیں پاتے۔ ہر وقت انکے راستے میں کانٹے بچھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خود مختار تو یہ پہلے ہی ہوتی ہیں۔ اسیلئے روایتی لڑکیوں کی طرح دباؤ برداشت کرنے کی بجائے طلاق کو ترجیح دیتی ہیں۔
جن گھرانوں کے مرد خواتین کے مسائل کو سمجھتے ہیں۔ گھر کی صفائی، کھانا پکانے، برتن دھونے، بچوں کی پرورش وغیرہ جیسے معاملات میں بیگمات کا ساتھ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے گھرانے خوشیوں کا گہوارہ بن جاتے ہیں اور عام لوگوں سے بہت پہلے اپنا ذاتی گھر، گاڑی وغیرہ جیسی چیزیں بنا لیتے ہیں۔اعتدال پسند گھرانوں کے بچے عام لوگوں کے بچوں سے ذیادہ ذہین اور ترقی پسند ہوتے ہیں-
ہمارے نوجوان اگر باوقار اور خوشحال زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو انھیں بیگمات کے مسائل کو سمجھنا ہوگا۔ گھرداری اور پروفیشنل کیریئر میں مدد کرکے انھیں بھی اپنے شانہ بشانہ کھڑا کرنا ہوگا۔
خواتین ملک کی آبادی کا پچاس فیصد ہیں۔ جب تک یہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا نہیں کریں گی اس وقت تک ہمارا شمار پسماندہ اقوام میں ہی ہوتا رہے گا۔

 

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے