تدبیر کا معنی منصوبہ، حکمت عملی، سوچ و بچار ہے تدبیر کی بنیاد منصوبہ بندی، معاملہ فہمی اور زمینی حقائق پر ہوتی ہے۔
تدبر انسانی شخصیت میں نکھار پیدا کرتا ہے اور انسان میں ایسی صلاحیت پیدا ہو جاتی جو حالات و واقعات کے حقائق میں مدد فراہم کرتی ہے۔ غور و فکر اور تدبر کو ﷲ تعالیٰ نے بندہِ مومن کی اوصاف میں شمار فرمایا ہے کیونکہ تدبر کے بغیر سوچ کے دروازے نہیں کھلتے اگر یہ دروازے مقفل (بند) رہیں تو گویا تاریخ کا سفر رک جاتا ہے آپ اسکی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ مسلمانوں نے اپنے ابتدائی دور میں تدبر کے ذریعے ہی نا صرف سائنسی علوم میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ بلکہ اپنی سوچ و بچار تدبر اور بہترین حکمتِ عملی سے مسلمانوں نے عظیم الشان فتوحات بھی پائی ہیں۔
ماضی قریب میں بانی پاکستان اور علماء و مشائخ جیسی عظیم ہستیوں کی محنت سوچ بچار تدبر اور بہترین حکمتِ عملی سے آج ہم آزادی سے اپنے الگ وطن میں سکھ چین کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اور اگر ہم اسی تدبر کو روز مرہ کے معمولات میں استعمال کریں تو اسے تدبیر بھی کہ سکتے ہیں کہ انسان اپنے ہر معاملے میں حسنِ تدبیر سے کام لے اس بات کو ہم بھی یوں سمجھ سکتے ہیں کہ تاجر اپنا تجارتی سامان لے کر بیٹھ نہیں جاتا کہ اب بس لوگوں کی ذمہ داری کہ وہ میرے پاس آئیں اور سامان لے جائیں بلکہ اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے وہ مختلف طریقے استعمال کرتا جسے ہم تدبیر بھی کہ سکتے ہیں مثلاً ایک مخصوص مدت کے لیے قیمت خرید سے کم کر کے چیز کو بیچنا اسے ترغیبی قیمت کہتے ہیں۔ یا بازار میں کوئی دوکان بنائے تو کچھ دنوں کے لیے چیز کو کم ریٹ پر فروخت کیا جاتا اسے افتتاحی رعایت کہتے ہیں۔
اسی طرح یہ طریقہ صرف تجارت تک محدود نہیں ہے بلکہ اسکا تعلق تمام تر اجتماعی معاملات سے ہے کہ اگر آپ کسی سے تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں کسی حلقہ میں نفوذ اور پزیرائی ترقی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو رعایت دینا ہو گی لین دین میں، معاملات میں، مسکراہٹ میں اور حسن اخلاق میں تب ہی لوگ آپکی طرف مائل ہوں گے لوگوں کو ہر اعتبار سے اپنی ذات کے تعلق سے رعایت دیں لوگ آپکی طرف کھینچے چلیں آئیں گے۔
ہمارے لیڈر عظیم رہنما ہمارے دلوں کی دھڑکن امام الانبیاء صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکت سے بھی یہ ہی چیز سیکھنے کو ملتی ہے کہ آپ ﷺ نے لوگوں کو رعایت دی۔ چاہے کوئی اپنا ہے یا پرایا ہے پھر ایک وقت آیا آپ ﷺ کے دشمن آپ ﷺ کے دوست بن گئے آپ ﷺ کی جان لینے والے آپ ﷺ پر جان نچھاور کرنے والے بن گئے۔
اس دنیا میں لوگوں میں اپنا مقام و مرتبہ بنانے کے لیے رعایت دینا ہو گی تب ہی ہم گھر میں دفتر میں معاشرے میں ایک کامیاب فرد کی حیثیت سے بہترین اور پر سکون زندگی گزار سکتے ہیں۔