سیدنا حسین ؓ نے یزید کی بیعت سے کیوں انکار کیا، دیگر کبائر صحابہ کرام کی کیا رائے تھی، واقعہ کربلا کیوں اور کیسے رونما ہوا، تفصیلات پیش خدمت ہیں۔
1.حضرت حسین ؓ کا یزید کی بیعت سے انکار:
حضرت امیرمعاویہؓ کی وفات کے بعد یزید منصب خلافت پر جلوہ آرا ہوا تو اس نے سب سے پہلے ان لوگوں سے بیعت لینے کا فیصلہ کیا کہ جن حضرات نے اس کی ولی عہد ی کی بیعت نہیں کی تھی اور انہیں میں حضرت حسین ؓ بھی شامل تھے۔جب سیدنا حسین کو معلوم ہوا کہ یزید نے مدینہ کے گورنر ولیدبن عتبہ کو ان سے بیعت لینے کا حکم نامہ بھیجا ہے تو حضرت حسین ؓ نے مدینہ سے رات کی تاریکی میں مکہ کی جانب ہجرت کی اور ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ وغیرہ بھی ہمراہ ہوئے۔ راستے میں حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی ملاقات حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر سے ہوئی۔ انہوں نے استفسار کیا کہ خیریت تو ہے کہ آپ مدینہ سے مکہ جارہے ہیں تو جواب میں دونوں حضرات نے بتایا کہ حضرت امیرمعاویہ وفات پاچکے ہیں اور اب یزید خلیفہ بن چکا ہے اور وہ بیعت لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔اسی اثنا میں حضرت عبداللہ بن عمر نہیں فرمایا ’’کہ اللہ سے پرہیزگاری اختیار کریں‘‘۔حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے والی مدینہ کے ہاتھ پر یزید کے حق میں بیعت خلافت کی۔ جبکہ حضرت حسین، ابن زبیر مدینہ سے مکہ اس لیے ہجرت کی کہ وہ بیعت یزید سے انکار کرتے تھے۔ اسی وجہ سے اہل کوفہ نے اپنی سابقہ دشمنی کا بدلہ لینے کے لیے حضرت حسین کو خطوط تحریر کئے کہ آپ ہماری طرف آجائیں ہم آپ کی معاونت ومدد کریں گے۔
2.کوفیوں کا مسلم بن عقیل کوفہ کی بیعت پھر انکار:
امیر معاویہؓ کی وفات کے بعد کوفہ سے متعدد خطوط حضرت حسین کی جانب آںے لگے جن میں یہ کہا جاتاتھا کہ کوفہ کے باسی آپ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کر تبنے کے لیے تیار ہیں آپ یہاں تشریف لے آئیں ہم آپ کو مکمل تحفظ فراہم کریں گے ۔کثرت خطوط و رسول کی وجہ سے حضرت حسین ؓ کے دل میں سفر کوفہ کا خیال ظاہر ہوا قبل اس کے کہ وہ روانہ ہوں کوفہ کی طرف انہوں نے کوفہ کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیجا اور ان کو خط بھی دیا کوفہ کے نام کہ مسلم میری نیابت کرتے ہوئے آپ کے ہاں آئے ہیں اگر انہوں نے مجھے آپ کے تعاون اور مدد کے بارے میں درست رائے دی تو میں سفر کوفہ کے لیے روانہ ہوجائوں گا۔مسلم بن عقیل کے دخول کوفہ کا جیسے اہل کوفہ کو پتا چلا تو وہ دوڑے آئے اور 18000 اٹھارہ ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کی امامت میں نمازیں بھی ادا کیں۔کوفی خفیہ طور پر مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کررہے تھے کیوں کہ وہ خوفزدہ تھے کہ کہیں ان کو کوفہ کے گورنر کی جانب سے معتوب نہ کیا جائے اسی اثناء میں یہ خبر یزید تک پہنچائی گئی کہ کوفہ میں خلافت کے خلاف سازش ہورہی ہے تو اس خط کے فورا بعد یزید نے بصرہ کے گورنر عبید اللہ بن زیاد کو حکم دیا کہ وہ والی کوفہ نعمان بن بشیرؓ کو معزول کرکے کوفہ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیں اور کوفہ میں پنپنے والی بغاوت و سرکشی کاخاتمہ کریں۔ عبیداللہ بن زیاد نے اپنے جاسوس و تفتیش کاروں کے ذریعہ معلوم کرلیا کہ مسلم بن عقیل کی جائے پناہ کونسی ہے اور ان کی معاونت کون کررہے ہیں تو فوراً مسلم بن عقیل کو گرفتار کیا اور ان پناہ دینے والوں کو بھی، اور پھر ان کو قتل کرکے بطور مثال بازار میں عیاں کردیا۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ مسلم بن عقیل کااٹھارہ ہزار کوفیوں(ماسوائے دو) نے ساتھ چھوڑ دیا جس کی وجہ سے وہ کمزور و معتوب ہوگئے۔
3. سیدنا حسین ؓ کوفہ روانگی:
کوفہ سے خطوط کی کثرت اور قاصدوں کے تبادلہ کے بعد جب مسلم بن عقیل کا خط بھی پہنچ گیا جس میں خوش کن صورتحال کی خبر تھی اور دعوت بھی کہ آپ ؓ کوفہ آجائیں ماحول سازگار ہے۔ خط کی تحریر کے بعد کوفہ کے باشندوں نے والی گورنر کے غیض و غضب کو دیکھتے ہوئے مسلم بن عقیل کو بے یارومددگار تنہا چھوڑ دیا، جس کے نتیجہ میں انہیں شہید کردیا گیا۔ دوسری جانب حضرت حسین نے سفر کا قصد کرلیا اس کی خبر جب کبار صحابہ اور مخلصین و محبین اہل بیت کو پہنچی۔ تو انہوں نے عدم سفر کا مشورہ دیا اور انہیں بتایا گیا کہ یہ وہی کوفی ہیں جنہوں نے آپ کے والد حضرت علی بن ابی طالب کو شہید کیا ور حضرت حسن کو دھوکہ دیکر ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، لہذا ان پر اعتماد نہ کیا جائے وہ ہمیشہ طاقتور کا ساتھ دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے فرزدق جو کہ مشہور شاعر تھا نے آپ کو سفر سے منع کرنے کیا۔ کہ کوفہ والوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں والی کوفہ کے حق میں۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے حضرت حسین کو کوفہ نا جانے کا مشورہ دیا، اور بتایا کہ وہ دھوکہ دینے والے اور غداری کرنے والے ہیں آپ صبر و استقامت کو لازم پکڑ کر یہیں مکہ میں رکے رہیں یا پھر یمن چلے جائیں۔ جہاں آپ کے خاندان سے محبت کرنے والے موجود ہیں مگر حضرت حسین نے ان سے عرض کیا چچازاد بھائی میں جانتا ہوں آپ مجھے مخلصانہ وہمدردانہ مشورہ دے رہےہیں ہیں مگر اب میں اپنے فیصلہ سے رجوع نہیں کروں گا، تو حضرت عبداللہ بن عباس نے ان سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ نے سفر کرنا ہی ہے تو آپ اپنے ساتھ بچے اور خواتین کو نہ لے کر جائیں چونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ کہیں آپ کو حضرت عثمان کی طرح بچوں اور اہل خانہ کے سامنے بے دردی کے ساتھ شہید کردیا جائے گا۔حضرت عبداللہ بن زبیر( جنہوں نے یزید کی بیعت نہیں کی تھی)نے بھی آپؓ کو اپنے فیصلہ کو ترک کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ کیا آپ ان لوگوں پر اعتماد نہ کریں۔ تو ان کے جواب میں بھی حضرت حسین ؓ نے فرمایا کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میں قتل کردیا جاؤں۔ مگر یہاں رہنے کی وجہ سے کعبہ شریف کی حرمت پامال ہو یہ پسند نہیں کرتا۔ ادھر سے یزید کو جب معلوم ہواکہ سیدنا حسین ؓ عراق کی جانب روانہ ہوچکے ہیں تو اس نے عبیداللہ کو خط لکھا کہ معلوم ہوا ہے کہ سیدنا حسین ؓ کوفہ کی جانب آ ریے ہیں لہذا ہوش مندی کے ساتھ خلافت کی حفاظت کے لیے حکمت و دانشمندی سے کام کرو اور ان کو گرفتار کرلو۔ کسی کو قتل نہ کیا جائے جب تک وہ خود جنگ نہ کریں۔ اس امر سے واضح ہوتا ہے کہ یزید نے سیدنا حسین ؓ کے قتل کرنے کا ہر گز حکم نہیں دیا۔جس کا ہمارے معاشرے میں پروپیکنڈا کیا جاتاہے۔ سیدنا حسین ؓ کو عراق کے قریب پہنچ کر پتہ چلا کہ حضرت مسلم بن عقیل کو شہید کردیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں ہمارے شیعہ نے دھوکہ دیا اور اس کے بعد واپسی کا فیصلہ کیا مگر مسلم بن عقیل کے بھائیوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے یاہم اپنے بھائی کا بدلہ لے لیں یا پھر قتل ہوجائیں۔
4. سیدنا حسین ؓ کی تین شرائط:
حضرت حسین ؓ جب عراق پہنچے تو ان کو ابن زیاد کی فوج نے گہرے میں لے لیا تو حضرت حسین نے خطبہ پڑھا اور فرمایا ’’اے اللہ مجھے بھروسہ ہے ہر مشکل و غم میں، آپ ہی سے مدد کا طالب ہوں مشکلات میں، آپ ہی پر اعتماد ہے مجھے کہ میری معاونت کریں گے، کتنے ہیں جو کمزور تھے مگر کامیاب و سرخرو ہوئے ، دوست دھوکہ دیتے ہیں، اور دشمن بھی، میرا کوئی سہارا نہیں ہے آپ کے سوا آپ ہی مجھے مشکل و تنگی سے نجات دلائیں اور آپ ہی ہر نعمت و خیر کے کارساز ہیں ‘‘۔اس کے بعد آپ نے کوفہ کی فوج جو کہ حر بن یزید تمیمی کی قیادت میں تھی۔ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’اے لوگو! میں آپ سے اور اللہ سے معذرت کرتا ہوں، میں آپ کی طرف اپنی مرضی و خواہش سے تمہارے پاس نہیں آیا بلکہ آپ نے خط تحریر کیے، اور اپنے قاصد بھیجے کہ ہمارا کوئی امیر و رہبر نہیں ہے آپ تشریف لائیں، ہماری قیادت سنبھالیں، اسی طرح ہم ہدایت کے ساتھ وابستہ ہوں گے، پس جب میں آیا تو میری اطاعت کرنا تم پر لازم ہے اور اگر میرا ساتھ چھوڑتے ہو تو یہ دھوکہ و فریب ہے اور وعدہ خلافی ہے، اور ہم واپس لوٹ جائیں گے جہاں منا سب سمجھیں گے، مگر حر بن یزید نے کہا کہ نہیں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم آپ کو گرفتار کر کے کوفہ کے والی کے پاس لے جائیں، تو سیدنا حسین ؓ نے اپنے لشکر کے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا جو جدا ہونا چاہتا ہے تو ہو جائے کیوں کہ والی کو صرف میری ضرورت ہے، سیدنا حسین ؓ نے تین شرائط پیش کیں، کہ ان میں سے کوئی قبول کرلی جائے تو میں بھی تیار ہوں۔
(اول) ہم جہاں سے آئے ہیں وہاں ہمیں واپس جانے دیا جائے۔
(دوم) مجھے یزید کے پاس جانے دو میں اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا۔
(سوم) مجھے اسلامی سرحد پر بھیج دیا جائے تو میں وہاں پر کفار سے لڑتے ہوئے شہید ہو جاؤں۔
کوفی فوج کے سربراہ عمر بن سعد ابی وقاص ان شرائط سے متاثر ہوکر اس سے والی کوفہ کو باخبر کیا تو یہ پیشکش جب عبیداللہ کو پیش کی گئی تو پہلے تو ابن زیاد راضی ہوگیا مگر "شمر” کی مکارانہ رائے سے وہ بعد میں متاثر ہوگیا جس میں اس نے کہا کہ اگر تم نے حسین کو چھوڑ دیا، تو یہ یزید کے پاس پہنچ گئے، تو وہاں دونوں چچا زاد بھائی مل جائیں گے، اور سیدنا حسین ؓکی شکایت پر تمہیں اور ہمیں یزید معتوب کرکے سزادے گا۔ اس لیے ان سے مطالبہ کرو کہ وہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لے وگرنہ مت جانے دو۔ابن زیاد، شمر کی سازش کے جال میں آگیا، اور اس نے یہی مطالبہ کیا تو سیدنا حسین ؓ نے اسے قبول نہ کیا۔
5: حضرت حسینؓ کی مظلومانہ شہادت:
اس لیے ابن زیاد نے شمر کی سرکردگی میں عمر بن سعد سے مطالبہ کیا کہ اگر حضرت حسینؓ بیعت نہ کریں تو ا ن سے جنگ کرو ورنہ قیادت شمر کو سونپ دو۔ عمر بن سعد نے قیادت شمر کو دینے کی بجائے خود انتھک کوشش کی کہ وہ حضرت حسین کو سرنڈر کرنے پر راضی کر لیں مگر ایسا نہ ہو حضرت حسین نے انکار کردیا۔ حضرت حسین ؓ نے جنگ کا آغاز نہیں کیا مگر یہ کہ انہوں نے خودسپردگی کے مطالبہ کو مسترد کردیا۔ اس کے بعد دونوں گروہوں میں جنگ کا آغاز ہوا ،حضرت حسین کے لشکر میں 72جبکہ ابن زیاد کی فوج میں پانچ ہزار لوگ شامل تھے، کوفیوں نے حضرت حسین کا ساتھ چھوڑ دیا، جبکہ لازمی تھا کہ وہ ان کا بھرپور دفاع کرتے مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ انہوں نے خیانت کی جس کے بعد حضرت حسین ؓ اپنے ساتھیوں سمیت جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگئے ۔
6. یزید کا غیض و غضب ابن زیاد پر:
سیدنا حسین ؓ کو شہید کرنے کے بعد ابن زیاد کے حواریوں نے ان کا سر کاٹ کر جسد ِ اطہر سے الگ کیا اور ابن زیاد کو بھیجا جس پر اس نے یزید کو خوش کرنے کے لیے یہ سر روانہ کیا جب یزید نے نواسہ رسولؓ کے سر کو دیکھا تو آہ و بکا کرنے لگا اور کہا کہ لعنت ہو ابن سمیہ(عبیداللہ بن زیاد)پر۔ میں ان کو شہید کرنے کا حکم نہیں دیا تھا، اللہ کی قسم میں وہاں موجود ہوتا تو ان سے درگزر کرتا، اللہ تعالیٰ رحمت نازل کرے سیدنا حسینؓ پر۔ ابن زیاد نے حضرت حسین کے صاحبزادے علی بن الحسین(زین العابدین) کو مع اہل خانہ کے یزید کی جانب دمشق روانہ کیا تو یزید نے خواتین کو شاہی محل میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رکھا اور زین العابدین کو بھی شاہی مہمان بنایا۔ اہل بیت کے گھرانے کی خدمت میں کسی طرح کی غفلت کو اختیار نہیں کیا گیا، بلکہ ان کی ہر سطح پر معاونت کی گئی۔ یہاں تک کہ یزید نے آل حسین سے استفسار کیا کہ تم میں سے کسی کے مال کو تو غصب نہیں کیا گیا جس پر انکار میں جواب دیا گیا، کہ کوئی لوٹ مار نہیں کی گئی۔ جب آل حسین نے مکہ جانے کا قصد کیا تو یزید نے حضرت نعمان بن بشیرؓ کو حکم دیا کہ وہ اس قافلہ کو باحفاظت مکہ پہنچانے کے لیے امانت دار محافظوں اور ان کے ساتھ گھوڑے اور زاد راہ فراہم کرے۔ حضرت زین العابدین کو روانہ کرتے وقت یزید نے پھر ابن زیاد پر لعنت بھیجی، اور کہا کہ میں نے آپ کے والد کے ساتھ سفر جہاد کیا اور ان کو کریم و رحیم پایا، اور ان کی ہر ممکن ضروریات کا میں نے خیال رکھا تھا، مگر ہر ذی روح کو دنیا سے جانا ہے۔ یزید نے حضرت علی بن الحسین کو زاد راہ کی فراہمی کیں، اور اگر کسی چیز کی حاجت و ضرورت ہو تو مجھے لکھنا بھیجنا۔
7. قاتلان سیدنا حسین ؓ ؟
حضرت زین العابدین فرماتے ہیں اے غدارو! مکارو، تمہاری مراد پوری نہ ہوں، کیا تم چاہتے ہوکہ مجھے بھی فریب دو جیسے میرے باپ دادا کو اس سے قبل فریب دیا تھا‘‘ (احتجاج طبری184)
حضرت زینب بنت علی نے کوفہ والوں کے ماتم کے جواب میں کہا ’’اے ا ہل کوفہ کس وجہ سے تم روتے ہو؟جب رسول خداؐ تم سے پوچھیں گے کہ تم نے میری اولاد اور اہل بیت کے ساتھ کیا سلوک کیا، تم ہم پر یہ گریہ ونالہ کرتے ہو، حالانکہ تم نے ہی ہم خود قتل کیا ہے‘‘۔(جلاء العیون503)
حضرت فاطمہ بن حسین ؓ ’’’اے اہل کوفہ تم نے ہم کو قتل کرنا حلال جانا، ہمارے مال کو لوٹا ،تمہاری تلواروں سے اہل بیت کا خون ٹپک رہاہے‘‘ (احتجاج طبری157) حضرت ام کلثوم بنت علی نے کوفی خواتین کے رونے پر کہا ’’اے زنان کوفہ! تمہارے مردوں نے ہمارے مردوں کو قتل کیا پھر تم کیوں روتی ہو؟ (جلاء العیون507)
8۔حرف آخر:
سیدنا حسین ؓ اور ان کے ساتھیوں نے دین اسلام کی سربلندی کے لئے جو قربانی دی ہے، یہ قیامت کی صبح تک روز روشن رہے گی، اور اسی طرح ان کے تذکرے ہوتے رہیں گے۔ اللہ تعالی اسے شرف قبولیت عطا فرمائے۔ اور ہمیں صحیح دین سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔