fbpx
بلاگ

جوش دل ( اقتباس: زنبیل عمر)

حضرت خواجہ محمد عمر بیر بلوی قدس سرہ العزیز

دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیاں جانے ہو دل کے سمندر میں ہر وقت اتنا ہیجان اور جوش رہتا ہے کہ کسی نے کم ہی سنبھالا ہوگا اور اس کے ابلتے ہوۓ خیالات کے چشمے ہر طرف بہتے نظر آتے ہیں۔ جب بھی کسی نے کوشش کبھی تو اکثر بے سود۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے سیرابی کم ہوتی ہے بلکہ سارے عالم میں قدرے قدرے چھیل کر بے فائدہ ہو نکلتا ہے۔ اگر پوری کوشش سے اس کی چوطرفہ بلکہ چھ طرفہ ناکہ بندی کر لی جاۓ تو اس بحر ذخار میں وہ طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ بجلی میں بھی نہیں ہوتی اور جس چیز سے اسے ٹکرا جاۓ وہ چور چور ہوکر اس کی تہ نشیں ہو جاتی ہے۔ جن لوگوں کے تم بڑے بڑے کام سنتے ہو انہوں نے اس طاقت سے کام لیا اور اس چھوٹے سے حوض کے تلاطم نے وہ رو پیدا کی جو سمندر سے نہیں ہوسکتی۔
ریل، جہاز اور طیارے سب اسی کی ادنی کرشمہ سازی ہے ۔ اجمیری، نظامی اور سرہندی اس کے بناۓ ہوۓ بندے۔غرض یا عجوبہ روزگار اتنا ارزاں کہ کسی کو کسی دوسرے کے پاس جانے کی ضرورت نہیں کہ یہ تن خاکی کے اندر نہایت حفاظت کے ساتھ موجود ہے۔ ریل انجن تو کیا ، بچوں کی ریل گاڑی کی قیمت بھی ادا نہ کرنی پڑے اور کام وہ کہ سینکڑوں گھوڑوں کی طاقت والے انجن سے جو نہ ہو سکے وہ یہ کر دکھاۓ۔

خدارا اس کے بے پایاں سمندر کو ضائع نہ کر ۔ مفت ملا ہے تو خدا کا شکرادا کر اور اس سے وہ کام لے جو تیرے لئے باعث عزت وفخر ہو، نہ یہ کہ تو ذلیل اور خوار ہوکر ہمسروں اور ہم عصروں کی آنکھ میں ذلیل ہو بیٹھے۔
تیرا دل ایک ہے۔ خواہ ظاہری حسن پر قربان کر ، خواہ باطنی پر ۔ تیری آنکھ ایک طرف ہی دیکھ سکتی ہے۔ باطن کی سیر کرے تو ظاہرکا تماشہ دیکھے تو ۔۔۔ خواہ اندردیکھ خواہ باہر۔

پھول کا شیدائی ہے تو کانٹوں سے نہ ڈر ۔ عاشق کہلا کر رسوائیوں سے کیوں ڈرتا ہے۔ ڈر ہے تو نہ عاشق ہے اور نہ عاشق کہلا۔
ایک پھول کے لئے سینکڑوں کانٹے جھیلنے پڑتے ہیں اور اس پر باغبان کا خوف الگ۔۔۔ تیرے لئے بھی سینکڑوں مصائب کے سوا باغبان قدرت کا کوڑا سر پر۔

طلب چھوڑ کہ مطلوب خود مجھے آ ملے۔

 

بچپن میں تو بے طلب تھا تو بلا طلب تیرے لئے سب کچھ مہیا تھا۔ تیرے اٹھانے کے لئے خوبصورت پر یاں اپنے اپنے ہاتھ بڑھاتی تھیں اورتو پرواہ تک نہ کرتا تھا۔ لیکن جب تو نے حسن و جمال کے لئے آنکھ اٹھائی تو تیرے سایہ سے بھی بھاگتی ہیں۔
لیلی گھر گھر پھرتی ہے لیکن مجنوں کو اتنا بھی نصیب نہیں کہ دور سے ہی اس کے جمال کو ایک نظر دیکھ پاتا، کیونکہ وہ اس کا طالب تھا۔ نیازمند کا کون سہارا ڈھونڈھتا ہے۔
جوخود نیازمند ہو اس کو کون قبلۂ حاجات جانے ۔ تو بے نیاز ہو کہ تمام دنیا تیری نیازمند ہوکر تیری غلامی کرے۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے