جہاں سے روز گزرتے ہو گر وہاں سے گزرنا چھوڑ دو تو کوئی ایک ہوتا ہی ہے جو دیکھ لیتا ہے کہ گزرنے والا اب کے آیا نہیں۔۔ ایسے ہی روز گزرنے والے بھی وہ نکڑ ویران دیکھیں تو سوچتے ضرور ہیں کہ اتنا اندھیرا؟ آج خیر تو ہے، اچھا شاید کوئی مجبوری رہی ہو۔
اگلے روز پھر گزریں تو ویرانی کچھ بڑھی ہوئی سی لگتی ہے، وحشتوں کو بڑھاوا دینے والے اندھیرے ویران کونے میں آج وہ پھر نہیں ہے، آپ دن بھر کے تھکے یہاں رک کر کچھ زیادہ سوچتے نہیں ہیں کہ شاید کہیں گیا ہوا ہے کل پرسوں تک آتا ہی ہو گا۔ تیسرے روز بھی جب وہ احترام بھرا سلام اور مسکراتا چہرہ نظر نہ آئے تو تجسس اور پریشانی دن بھر کی تھکن کو لپیٹ سمیٹ کر ایک طرف رکھتے ہیں کہ کسی اور سے پوچھ لیں یہ بتیاں کیوں بجھی ہوئی ہیں،اس قدر اندھیرا؟ جواب ملتا ہے یہ روشنیاں جس کے دم سے تھیں وہ نہیں رہا۔
کبھی کسی روز تین چار آوارہ کتوں سے ڈر کر آپ اس کونے پر رکھی کرسی پر بیٹھ جائیں تو وہ ان کو بھگا دیتا تھا،میرے چہرے پر لکھا ہوتا تھا کہ آج راہ چلتے کسی نے چھیڑا ہے کچھ گھٹیا جملہ بولا ہے جو میں گالیاں دے رہی ہوں یا منہ بنا ہوا ہے ، کوئی اجنبی اتنی وجہ بھی سمجھ جائے اور اس روز روایتی سلام کے بجائے صرف نظریں جھکا لیتا ہے کہ شاید وہ ان گلی محلوں میں یہ ہونے پر نادم ہو تو میرے جیسوں کے لیے کافی ہے۔ ہاں کسی روز موڈ اچھا ہوتا تھا تو اسی درباری پر رک کر کچھ کھا لیتے تھے، کوئی کتاب کوئی پارسل آنا ہو تو حیدریہ سے پہلے درباری والا بیٹھا ہے نا بس وہاں سے چوتھا گھر ہے باہر میرا نام لکھا ہے۔۔ ایڈریس سمجھانا بھی آسان تھا اب دیکھیں پتہ تو بدلا نہیں پتہ سمجھانے کا طریقہ بدلنا پڑے گا کہ محلے کی نسبتاً نئی نشانی جنت مکانی ہو گئی۔
جس رستے سے دن میں دو چار بار گزرنا ہو اس کی نکڑ یوں ویران ہو جائے تو پہلے پہل پریشان ہوتی ہے پھر وحشت ، کسی روز معمول کی بات لگنے لگتی ہے اور کسی روز خوامخواہ کتے کو دیکھ کر خوف آتا ہے کہ آج کون بچائے گا، جب تک یہ آباد تھا روشن رہا یہاں سے بےدھڑک گزر سکتے تھے اب لگتا ہے یہاں کچھ چھن جائے گا یہاں واردات ڈالنا آسان ہو گیا ہے ، کہیں پھر وہ گاڑی والے لونڈے تو نہیں آ جائیں گے، پھر بھاگ کر گھر جانا پڑے گا۔
ایسے کونے، ایسی نکڑ، ایسے کئی ویرانے ہم سب کے پاس ہوتے ہیں کچھ مستقل ویرانے کچھ عارضی ۔۔ وہ ویرانہ جو اپنے گرد زمانہ رکھتا ہو گر پھر آباد ہو سکے تو کر لینا چاہیے، جب تک اسے آباد کرنے کی چاہ آباد کرنے والے سلامت ہوں تب تک انسان کو لگتا ہے اچھا چلو پھر کبھی سہی، کل دیکھیں گے،خیر ہے یار ابھی تو عمر پڑی ہے ، بات تو وہ بھی کر سکتا تھا، روشنی آنچل میں بھر لانے کا ٹھیکہ صرف میں نے تو نہیں اٹھایا تھا ،بھلے لالٹین نہیں رہی تو فلیش لائٹ ہی لے آتا۔۔۔۔ اور پھر ایک روز آتا ہے کہ خالی جگہ بھی ویسی رہتی ہے اور ویرانی بھی پر آباد کرنے والا باقی نہیں رہتا، اس روز کا ملال ہر تاخیر اور عناں گیر سے بڑھ کر ایسا خطرناک بوجھ بنتا ہے کہ اس ملبے تلے دب کر مرنے والے پھر بتا بھی نہیں سکتے کہ اب ان اناؤں ، ملالوں ، رنجشوں ، نوکریوں ، مجبوریوں اور تاخیری حربوں کا اچار ڈالیں تو کہاں جا کر۔
بہت کچھ کھونے والے ایسی معمولی جگہوں پر خوشیاں تلاش کر لیتے ہیں کہ سننے والوں کو سمجھ نہ آئے اپنے لگائے پودے پر لیموں اگ آنے کی خوشی کیا ہو گی یہ شاید پاگل ہو گئی ہے پر جیسے ان پودوں کے سڑ جانے کا دکھ ہوتا ہے ویسے ان پر پھل آنا بھی خوشی دیتا ہے ، یہ بات صرف اس انسان کے لیے سمجھنا ممکن ہوتا ہے جس نے پھل دیکھا ہو پھر اسے کھویا ہو۔۔ کھو کر پانا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا ، ساری عمر کے ملال کے ساتھ جینے سے بہتر ہے ویسا دن آنے سے پہلے ایسے سب ویرانے آباد کر لیے جائیں۔