آزادی کسی جلاد کا نام ہے
کازانت زاکس کی کتاب ”آزادی یا موت“ان لفظوں سے شروع ہو تی ہے کہ
”بابا!اسے گولی کسے ماری تھی؟“
”آزادی!“
بابا!اسے پھانسی پر کس نے لٹکایا تھا؟“
”آزادی!“
”بابا!اس کی گردن کس نے کاٹی تھی؟“
”آزادی!“
”بابا!اسے تیل کی گرم کڑھائی میں کس نے پھینکا تھا؟“
”آزادی!“
”بابا!اسے آرے سے کیوں چیر دیا گیا؟“
”آزادی!“
”بابا!کیا آزادی کسی جلاد کا نام ہے؟“
”ہاں بیٹے!پر وہ جلا بڑا جادوگر ہے۔ایک بار اگر تم نے اس کے ہاتھ چوم لیے تو تم سے اپنے سر کی سار(فکر)بہت پیچھے رہ جائیگی!!!“
یہی بات ایاز نے بھی کہی ہے کہ
”آزادی!جنھن جی من میں کھاٹ ھنے تھی
ان جو سب سکھ چین کھنے تھی“
”آزادی!یہ جس کے من میں سما جا تی ہے اس کا سب سکھ چین چھین لیتی ہے!“
جب وہ آزادی کا نام اپنے کانپتے ہونٹوں سے لیتے ہیں تو ان کے ہونٹ سُرخ ہو جا تے ہیں گلاب کی ماند!وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر سردی میں کانپتے ہیں پر جب آزادی کا نام کسی محبوبہ کی ماند لیتے ہیں تو ان کے بدن میں لہو سے بھری گرمی دوڑ جا تی ہے،لہوسے بھری گرمی!ا ن کے ہاتھوں میں کچھ نہیں۔پر ان کی آنکھوں میں بہت سپنے ہیں جو ان کی آنکھوں میں جب بھی ان کے ساتھ رہتے ہیں جب وہ پیچیدہ راہوں سے ہوکر وہاں پہنچتے ہیں جہاں پہاڑوں،سپنوں،بادلوں اور چاند کے سوا کوئی ہیں ہوتا!
جب انہیں آزادی ہی جینے کا سہارا دیتی ہیں
وہ جیتے ہیں
وہ روتے ہیں
وہ تڑپتے ہیں
وہ دئیے کی ماند جلتے ہیں
وہ جیتے ہیں
وہ ملتے ہیں رات کی تاریکی میں سپنوں سے
وہ بادلوں میں گم ہو جا تے ہیں
بادل ان پر برستے ہیں
چاند ان سے ملنے آتا ہے
اور وہ چاندنی میں مل کر چاند ہو جا تے ہیں
جب انہیں آزادی ہی جینے کا حوصلہ دیتی ہے اور وہ پہاڑوں کی خاموش صداؤں میں آزادی کے گیت گا کر دھرتی کو جگاتے ہیں،ان کے پُر سوز آوازوں پر بس دھرتی ہی نہیں جاگتی
کائینات جاگ جاتی ہے
کائینات کا ذرہ ذرہ جاگ جاتا ہے خوشبو،رنگ اور ہواؤں میں اُڑتی دھول ان کا ماتھا چوم لیتی ہے
جب دھرتی چاہتی ہے کہ ا ن سے بغل گیر ہو جائے
جب دھرتی چاہتی ہے کہ ان کا منھ چوم لے
جب دھرتی چاہتی ہے کہ اگر یہ مجھ میں نہیں سماتے تو ان کا سینہ اتنا وسیع ہو جائے کہ میں اس میں سما جاؤں وہ بہت کچھ جانتے ہیں پر کچھ نہیں جانتے جب وہ کچھ نہیں جاتے تب دھرتی دھول بن کر ان کے پیروں سے لپٹ جا تی ہے خوشبو بن کر ان کے جسموں سے چمٹ جا تی ہے اور بارش بن کر ان پر برسنے لگتی ہے
چاند شرمسار ہوتا ہے کہ
وہ چاند کیوں ہے؟
وہ دھرتی کے پہاڑوں پر بسنے والا آزادی پسند کیوں نہیں
چاند شرمسار ہوتا ہے کہ وہ روشن کیو ں ہے؟
اس کا چہرہ دھول آلود کیوں نہیں؟
چاند شرمسار ہوتا ہے کہ
اس میں چاندنی کیوں سمائی ہوئی ہے؟
اس کی محبوبہ آزادی کیوں نہیں؟!!!
وہ جب جب بھی آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں یا آزادی کا گیت گاتے ہیں تو پوری دھرتی ندی نالوں سمیت آبشاروں کھلیانوں سمیت،بھاری پتھروں نخلستانوں سمیت،اپنی تمام تر بارشوں اور روشنوں سمیت شبنموں سمیت دھول پن کر ان کے پیروں سے لپٹ جا تی ہے۔جب وہ شہزادے ہو تے ہیں آزادی ے شہزادے اور دھرتی معض ایک محبوبہ
جس کے لیے سندھ کے معصوم شاعر استاد بخاری نے لکھا تھا کہ
”ھُئن مٹیءَ جی چپٹی آھیان
جئے دیش تہ پو دھرتی آھیان!“
”ویسے بس مٹی کا ذرہ ہوں،پر اگر آزادی کا نعرہ لگا تو دھرتی ہوں!“
اگر یہ آزادی کے عاشق نہ ہوں تو دھرتی کی کیا حیثیت رہ جا تی؟
اگر یہ دھرتی سے عشق میں اپنا لال لہو نہ بہائیں تو دھرتی کی کیا معنیٰ؟
اگر یہ دھرتی سے عشق نہ کریں تو سوائے خاکی مٹی کے اس سیارے کی کیا وقعت؟
یہ دھرتی پر آزادی کے عاشق ہی ہیں جب اپنی زباں پر محبت سے دھرتی کا نام لاتے ہیں تو ان کے لب لال لال ہو جا تے ہیں،سُرخ ہو جا تے ہیں اور دھرتی ”گاڑھو کھونبھو“(دلہن کا لال شادی کا لباس) بن جا تی ہے،اگر یہ نہ ہوں اگر ان کے من میں دھرتی کی آزادی اور محبت نہ ہو تو دھرتی بس مٹیءَ جی چپٹی(مٹی کا ذرہ) ہی ہو تی پریہ اپنی زباں پر پہاڑوں کی چوٹیوں سے دھرتی کا نام لے کر دھرتی کو محبت کوامر کر دیتے ہیں اس لیے دھرتی کے لیے جان دینے والا یہ نہیں سوچتا کہ وہ کیا کر رہا ہے وہ تو بس اس عشق سے سرشار ہوتا ہے کہ جب وہ لہو لہو ہوگا تو دھرتی اسے اپنی بہانوں میں بھر لے گی اور سچ بھی یہی ہے!
دھرتی نے کتنے سرداروں،میروں،پیروں،بھوتاروں،وڈیروں،پگاروں کو یاد رکھا ہے؟
اور دھرتی انہیں کب بھولی ہے جو بس دھرتی کے لیے جئیے اور دھرتی کے لیے قربان ہو گئے
آج بھی جب خوبصورت حسینائیں اپنی چھاتیوں،اپنے پستانوں پر ہوشو،ہیموں کی ٹی شرٹ پہنتی ہیں اور ان کے دودھ سے بھرے پستانوں پر ہوشو،ہیموں جھولوں میں جھول رہتے ہو تے ہیں تو یہی ان کی کامیابی ہے!
آج جب خوبصورت نازک،لال،سُرخ لب سیاہ فام شیدی ہوشو کا نعرہ اپنے لبوں سے لگاتے ہیں کہ
”مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں!“
تو یہی ہوشو کی کامیابی ہے
آج جب ہیموں سے لیکر سر بلند تک کی تصاویر سفید پیارے پستانوں پر جھول رہی ہے یہ دھرتی کے عاشقوں کی کامیابی ہے اور یہ مقام انہیں اس لیے ملا ہے کہ انہیں دھرتی اور دھرتی کی آزادی سے محبت ہے!
وہ جب جب آزادی کا نام لیتے ہیں ان کا منھ خوشبو سے بھر جاتا ہے اور لب لال ہو جا تے ہیں
جس آزادی کے لیے کافکا نے کہا تھا کہ
”آزادی کا نام لینے سے
ہر طرف خوشبو بھکر جا تی ہے
پیشانیاں سورج کی ماند چمکنے لگتی ہیں
آزادی کی زلفیں رات کی ماند سیاہ ہیں
کیسی حیرت کی بات ہے کہ
جو آزادی کے منھ پر
رات اور دن ایک ہو جا تے ہیں!“
اور کافکا نے آزادی کے لیے یہ بھی کہا تھا کہ
”آزادی کی موجودگی
گلاب کے گلوں کو سُرخ کردیتی ہے
کیوں کے میری محبوبہ آزادی کے ہونٹ سُرخ ہیں!“
اول آزادی
آخر آزادی
آزادی زندہ باد!
بس اس سخت سردی میں اپنی بندوق کی نال کو گرم رہنے دو!!!!