جرمنی کے مشہور فلسفی آرتھر شوپنہار کا کہنا ہے کہ ” موسیقی رُوح کی غذا ہے اور یہ اہم ترین فن ہے جس کی تاثیر ماورائی ہے”۔
پچھلی صدی میں گزرے بچپن کے حسین دنوں کو اگر یاد کیا جاۓ تو دل کے کسی کونے میں کچھ دُھنیں بھی اپنے سُر بکھیرنا شروع ہو جاتی ہیں۔ جیسے دِل دِل پاکستان یاد آنے پر مجھے جنید جمشید کا سانولی سلونی سی محبوبہ بھی لازمی یاد آجاتا ہے ( ویسے ” وہ ” سانولی نہیں تھی )۔ گٹار کو دیکھ کر لازمی علی حیدر کا پرانی جینز اور گٹار یاد آۓ گا۔ شہزاد راۓ بھی تیرا مکھڑا حسین یاد کروا دیتا ہے۔ لیکن ایک میوزک جو اکثر مجھے اب بھی یاد آجاتا ہے وہ ” ایکس فائل ” نامی ایک جاسوسی سیریز کا تھا جس کا بچپن میں ہر ہفتے انتظار رہتا تھا۔ پی ٹی وی پر انگلش سیریز میں ” چپس ” کے بعد جو پسندیدہ رہی وہ یہی ایکس فائل تھی۔ اس کی ابتدا جس دُھن سے ہوتی تھی وہ آج بھی اکثر خیال میں آجاتی ہے۔
اگر ذہن پر زور ڈالا جاۓ پھر تو ذہن چل چھیاں چھیاں چھیاں بھی یاد کروا دیتا ہے۔ یا پھر ایک گانا تھا۔ اکھیاں ملاؤں کبھی اکھیاں چراؤں، جس میں بنا پائل کے ہی گھنگھرو بجنے لگ جاتے تھے بھی کافی ہٹ رہا ہے۔ جب عامر خان پسندیدہ ہیرو بنا تو اُس کی فلم کے مشہور ہوۓ کسی گانے سے دل بہلا لینا، یا پھر ایشوریہ راۓ کا چرچا سُن کر، چاند چھپا بادل میں، شرما کے میری جاناں والے گانے کو سُن کر تخیل میں اور ہی چاند کے پاس پہنچ جانا بھی جوانی کا حصے رہے۔
کالج آنے پر زندگی کو انگلش ٹچ دینا بھی ضروری سمجھا۔ مائیکل جیکسن کا نام تو خیر شروع سے ہی مشہور تھا۔ لیکن لڑکی کی آواز میں جو انگلش گانا سب سے پہلے سُننے کو ملا وہ اب بھی ناسٹلجیا کا حصہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ شاید باقاعدہ ویڈیو میں پرفارمنس تھی جو ایلی زے نے کمال مہارت کے ساتھ دی۔ پیٹرک لیونارڈ نے جب اسی گانے کی دُھن مائیکل جیکسن کو سنائی تو اس نے زیادہ توجہ نہ دی۔ لیکن جب یہی دُھن میڈونا نے سُنی تو پیٹرک کے ساتھ مل کر گانے کے بول بھی ترتیب دیے۔ خیر مائیکل کو تو کوئی فرق نہیں پڑا، لیکن میڈونا کی گُڈی کافی چڑھ گئی۔
آج جب نظروں کے سامنے یہ گانا گزرا تو بچپن اور جوانی کے بیتے لمحے یاد آگئے۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے دور میں ذہن میں آۓ خیال پر فیس بُک نے فوراً توجہ موسیقی کی طرف دلانا شروع کر دی۔ ایسے ہی سکرول کرتے ہوۓ فلسفے کے ایک گروپ سے شوپنہار کا موسیقی کے متعلق مضمون نظروں سے گزرا۔ آپ کو بھی اس فلسفیانہ بات میں شریک کرتا ہوں۔ متفق ہونا یا تنقید کرنا آپ کا حق ہے۔ آپ اس حق کو بھرپور استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن موسیقی کے متعلق اس پوسٹ پر حرام ہے حرام ہے وغیرہ کی گردان نہ ہی کی جاۓ تو بہتر ہے۔ لیکن پھر بھی اگر ذہن کے کسی گوشے میں جوانی کی کوئی دُھن بجنا شروع ہو تو بتائیے گا ضرور کہ وہ کون سی تھی اور اُس کے محرکات کیا تھے۔
” شوپنہار نے موسیقی کو دیگر فنون سے مختلف قرار دیا کیونکہ یہ ایک شخص کی باطنی دنیا کی نقلی حیثیت کے اظہار کا اچھوتا طریقہ ہے۔ یہ کسی فنکار کی خواہش کی نقل ہوتی ہے۔ موسیقی میں تخیلات اصل ہوتے ہیں جو خواہش کو معروضی طور پر معقول انداز میں بیان کرتے ہیں اور علوم و فنون کی تمام اصناف میں پائے جاتے ہیں۔ موسیقی میں انسان اپنی خواہش کی نہ صرف نقل کرتا ہے بلکہ اسے آگے منتقل کر دیتا ہے۔یہ عظیم فن ہے۔ اس کا اثر لوگوں پر گہرا ہوتا ہے۔ ایک ایک لفظ،جذبات و احساسات لوگوں تک مکمل طور پر پہنچائے جاتے ہیں اور وہ انہیں سمجھ بھی لیتے ہیں۔ موسیقی میں آواز اور آرکیسٹرا میں اتنی زیادہ قوت ہوتی ہے کہ ہر سامع سن کر کہتا ہے کہ یہ اسکے جذبات کی عکاسی کر رہی ہے۔موسیقی ایک بین الا قوامی زبان ہے جسے ہر کوئی بلا رنگ و روپ، اور مذہب سمجھ لیتا ہے۔
موسیقی انسان کے دل و دماغ پر فوری اثر کرتی ہے۔ اس کا تعلق فطری صلاحیتوں کے ساتھ بھی ہے اور ہنر مندی کے ساتھ بھی۔ اگر کوئی سُر میں نہ ہو تو وہ مکمل طور پر سامعین کو متاثر نہیں کر سکتا اور اس وجہ سے خواہشات میں کمی کی بجائے الجھن بڑھ جاتی ہے۔ لیکن اگر کسی کی آواز اچھی ہے اور وہ موسیقی کا علم بھی رکھتا ہے تو اس سے نہ صرف موسیقار میں بلکہ سامعین میں بھی دیوانگی اور جنون کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ جس سے جسم و جان پورے طور پر اس کے سحر میں آ جاتا ہے اور خواہشات کا احساس نہیں رہتا۔ حس جمالیات، موسیقی، شاعری اور ادب میں ہمارے دماغ کے دائیں نصف کرے کی ابتدائی جبہی فص (پری فرنٹل لوب) کا تعلق ہیجانات پیدا کرنے کے ساتھ ہے۔ موسیقی میں وہ لاشعوری طور پرمتحرک ہو جاتے ہیں اور ہیجانات کو بر انگیختہ کر دیتے ہیں۔
موسیقی میں برقی جسدی، (الیکٹرو ڈرمل) قلبی رگوں میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے رد اعمال (کارڈیووسکولر) کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
لرزش،حوصلہ پست ( چِلز) باطنی احساسات پیدا ہو جاتے ہیں۔
نفسی طبعی رداعمال ( سائیکو فزیکل) تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
جوش اور شہوت (ایریکشن۔ پائیلو ایریکشن) پیدا ہو جاتا ہے۔
جلدی تبدیلی لا کر رونگٹے( گُوز بمپس) کھڑے ہو جاتےہیں۔
احساسات میں عروج، بلند ترین جذباتی کیفیت (ایموشنل ایپکس) پیدا ہو کر محرک کا باعث بن جاتا ہے۔
حرکی چہرے کے تاثرات (موٹر۔ فیشل ایکسپریشن) میں تبدیلی آ جاتی ہے۔
ای۔ای۔جی کی تکنیک سے تمام عضلاتی اور عضویاتی تبدیلیوں میں پیمائش کی جا سکتی ہے۔ حفتی انداز کی سرگرمیاں، دو گمٹی ملاپ (زائگومیٹک ایکٹیویٹی) کی سائنسی پیمائش کر کے خواہشات میں کمی یا بیشی محسوس کی جا سکتی ہے۔
موسیقی موڈ پر اثر انداز ہو کر اسے کنٹرول کرتی ہے۔ ذاتی باخبری (سیلف۔ اویئر نیس) پیدا کرتی ہے۔ اگر کسی نے اپنا موڈ خوشگوار کرنا ہو تو مسلسل دو ہفتے مثبت (پوزیٹیو) تحریک کو بڑھانے والی اور جوش پیدا کرنے والی موسیقی سنے تو افسردگی دور ہو جاتی ہے۔ خواہشات کی شدت کم ہو جاتی ہے۔قوت برداشت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ذاتی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے۔ چلتے ہوئے یا دوڑتے ہوئے سنیں تو اس سے سٹیمنا بڑھتا ہے۔ ترقی کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔
تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ موسیقی سامعین میں قناعت پیدا کرتی ہے۔ درد کم کرتی ہے۔ ڈہنی آسودگی بخشتی ہے۔ جسمانی قوت بڑھاتی ہے۔ سوچوں اور کردار کو مرتکز کرتی ہے۔
لوگوں کی خواہشات اور تکالیف کے ازالے کے لئے اس بات کا تعین ضروری ہے کہ وہ کس قسم کے خواص کا مالک ہے۔ ذوق کے مطابق موسیقی تکالیف کی نجات میں مدد دیتی ہے۔ وہ اس میں گم کر رہ جاتا ہے اور ارد گرد کا ہوش کھو دیتا ہے۔ اس صفت کی بدولت ذاتی تعلقات بھی بنتے اور بگڑتے ہیں۔ موسیقی کی کئی جہتیں ہیں۔
پاپ موسیقیٗ جذبات ابھارتی ہے۔ اس کو سننے والے خارج
بین (ایکس ٹرو ورٹ) جلد ہی ارتعاش میں آنے والے ہوتے ہیں۔ دوسروں سے جلد ہی تعلقات قائم کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان میں اپنا تصور ذات عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ کام کرنے والے(آؤٹ گوئنگ) ہوتے ہیں۔
دیہی موسیقی ٗ (کنٹری موسیقی) کے دلدادہ محنت کوش، جذباتی پختگی، قدامت پسند ہوتے ہیں۔ ان میں ذہنی کشادگی کی خصوصیت نسبتاً کم پائی جاتی ہے۔
بھاری آلات والی موسیقی ٗ (راک اینڈمیٹل میوزک) کے شوقین تخلیقی ہوتے ہیں۔ نرم مزاج، دروں بیں (انٹرو ورٹ) ہوتے ہیں۔ ان میں ذاتی تصور ذات کم پایا جاتا ہے۔
کھلے انداز میں بجانے والی اِنڈی علاقائی موسیقی ٗ(انڈی میوزک) والے سامعین کم محبت والے، دروں بین، جلد ہی اضطراب کا شکار ہونے والے، منفعل، خود کو نمایاں کرنے والے، ذہین اور سخت دل ہوتے ہیں۔
رقص و سرود والی موسیقی ٗ (ڈانس میوزک) کے شائقین کشادہ ذہن، ہر ایک کو موقعہ دینے والے اور سماجی قبولیت کرنے والے ہوتے ہیں۔
کلاسیکی موسیقی ٗ (کلاسیکل میوزک) کے شوقین سسست رو ہوتے ہیں۔ ارد گرد سے لاپرواہ، اعلی ذوق رکھنے والے اور اعلیٰ تصور ذات والے ہوتے ہیں ۔
روح پرور موسیقی ٗ (جاز، بلیوز اینڈ سول میوزک) میں افراد بروں بیں،اعلیٰ تصور ذات، تخلیقی، ذہین اور سہولت پسند ہوتے ہیں۔
موسیقی سے رجحانات تشکیل پاتے ہیں۔ یہ جذبہ ہم روی، کسی شئے پر اصرار، سماجی اشارات، علاماتی تنقید و رہنمائی، حساب دانی، کارکردگی میں اضافہ،تجسس اور تخیل میں بہتری لاتی ہے۔ موسیقی صنف، عمر، سماجی رتبہ، تعلیم و تربیت، ثقافتی پس منظر خواہش کی کمی لانے کے لئے اہم شمار ہوتی ہے۔ تاہم ذوق کے مطابق موسیقی حسبِ منشا خواہشات میں کمی لا تی ہے۔”
——————-
( نوٹ : شوپنہار کی موسیقی کے متعلق تحریر فلسفہ کے گروپ سے لی گئی ہے )