کیا ہمیں سگے رشتے داروں سے اپنی نفرتیں اپنی اولاد میں ٹرانسفر کرنی چاہیں؟
کیا زیادتی کرنے والے سگے رشتے داروں کی بیٹیاں اپنے گھر لے آنی چاہیں یا ان کو بیٹیاں سونپ دینی چاہیں؟
اگر خاندان میں اختلافات ہوں تو اس کے متعلق اولاد کی تربیت کیسے کریں؟
اور اولاد کی شادیاں کہاں کریں؟
سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ اولاد ایک زمہ داری ھے ملکیت نہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے ہمیں اولاد اس لیے دی ھے کہ ہم اس کی اچھی تربیت کریں اور اسے معاشرے کا فعال رکن بنائیں۔ اولاد ملکیت نہیں ھے کہ ھم اس کے مالک بن کے اس کی زندگی کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ کٹھ پتلیاں بنا کے ساری عمر اس کی ڈوریاں ہلاتے رہیں۔ اس کو اپنے اشاروں پہ نچاتے رہیں۔ ایموشنل بلیک میل یعنی ان کا جذباتی استحصال کرتے رہیں۔
یہ ذمہ داری ھے اس کے بارے میں سوال ہو گا اور اولاد سے سوال سے پہلے والدین سے سوال ہو گا کہ آیا ہم نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کیں؟ اور کہاں تک پوری کیں؟
ہمارا مسئلہ یہ ھے کہ ہم اولاد کو اپنا فرمانبردار، تابعدار بنانا چاہتے ہیں ہر والدین کا مسئلہ ہے کہ اولاد فرمانبردار نہیں ہے ہر والدین کی دعا ھے کہ اولاد تابعدار ہو جائے ہم رات کو دن کہیں تو یہ دن کہے ہم رات کہیں تو یہ رات۔
یہ سب ہم اس لیے نہیں چاہتے کہ ہم اپنی اولاد کو حق کی تلقین کریں تو وہ ہماری طرف متوجہ ہو ہماری بات مانے بلکہ اس لیے کہ ہم اس کے ہر غلط صحیح کا فیصلہ کریں اور وہ سر تسلیم خم کرئے۔
ہم جو چاہیں یہ بن کے دیکھائیں ڈاکٹر یا انجینئر۔
ہم جہاں کہیں یہ وہاں شادی کریں خالہ ، پھوپی، ماموں ، چاچا کے گھر۔ یا ہمارے بزنس پارٹنر یا دوست کے بچے سے۔
اور یہیں پہ بس نہیں ہے بلکہ یہاں تک کہ ہماری اپنی ہی پسند کی ہوئی بہو سے جب ہم کہیں یہ جان چھڑا لے۔ اور اسے دفع کر کے ایک بار پھر ہماری ہی پسند کی ہوئی لڑکی سے ہماری ہی شرائط پہ دوبارہ شادی کر لے۔
افسوس کہ نسل در نسل یہی پریکٹس جاری ھے۔
افسوس کہ والدین تربیت پہ نہیں ملکیت پہ فوکس کیے ہوئے ھیں۔
اس چکر میں ہم نے اولاد کو انسان سمجھنا بھی چھوڑ دیا ھے۔ اسلام سے والدین کے حقوق کی ساری احادیث اکھٹی کر کے بچوں کو سنا سنا کے ایموشنل بلیک میل کر کر کے ان کے دماغ ماؤف کیے ہوئے ہیں ان کی زندگیاں برباد کی ہوئی ہیں ایسے میں اولاد کے پاس دو آپشن ہیں یا وہ اس بربادی پہ افف تک نا کہے اور آرام سے والدین کی دنیا سنوارے اور اپنی آخرت خراب کرتی رہے یا بغاوت کرئے اور والدین کی نافرمان کہلائے اور زندگی بھر ان کی بد دعائیں لیتی رہے۔
ضرورت ہے کہ والدین ہوش کے ناخن لیں اولاد کو انسان سمجھیں۔ اپنا مال نہیں۔
ان کی تربیت کریں
ان کو اچھا برا سمجھائیں
غلط صحیح کی تمیز سیکھائیں۔
لوگوں کی پہچان کرنا سیکھائیں۔
ان کو معاشرے کا فعال رکن بنائیں
انہیں لوگوں کے لیے نفع بخش بنائیں
اب آگئی بات رشتے داروں سے آپ کے معاملات کی تو اس کو سمجھنے کے لیے ہم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مثال لیتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طریقہ تھا کہ جب بھی کوئی معاملہ درپیش ہوتا وہ اپنی سب اولاد کو بیٹھاتے ان کے سامنے معاملہ رکھتے ان کو حقائق بتاتے اس معاملے سے متعلق اپنی رائے دیتے اور بیوی بچوں سے رائے طلب کرتے اور پھر اس معاملے کا مکمل جائزہ لے کے اس پہ اپنی حکمت عملی مرتب کرتے۔ فیصلہ کرتے اور اس فیصلے کے محرکات، وجوہات اور نتائج پہ کھل کے اظہار خیال کرتے۔
اسکا فائدہ یہ ہے کہ بچپن ہی سے بچوں کے سامنے ہر بات واضح ہوتی ہے اس بات کی گنجائش نہیں ہوتی کہ کل کو کوئی آٹھ کے ان کو ان کے والدین کے خلاف ورغلا سکے۔
دوسرا فائدہ بچوں میں ابتداء ہی سے معاملہ فہمی آتی ہے اور قوت فیصلہ مضبوط ہوتی ہے۔
تیسرا فائدہ والدین جب اپنی اولاد کے سامنے سب معاملات رکھتے ھیں تو ان کی کوشش ہوتی ھے کہ ان کا امیج اولاد کے سامنے خراب نا ہو ان کی اولاد ان کو غلط نا سمجھے اس لیے وہ زیادتی نہیں کرتے حد سے تجاوز نہیں کرتے اور خود کو مثبت رکھتے ہیں۔
غلط بیانی کرنے کا فائدہ کوئی نہیں اولاد شعور آتے ہی سمجھنے لگتی ہے کہ کون غلط ہے کون صحیح۔
یہی سب سے احسن طریقہ ھے کہ اپنے تمام معاملات اور اختلافات بچوں کے سامنے رکھیں اپنا نقظہ نظر سمجھائیں اپنے جذبات احساسات اور حکمت عملی سب ان سے ڈسکس کریں بچوں میں بچپن سے معاملہ فہمی پیدا کریں۔ اور یاد رکھیں ایسا کرتے ہوئے حد سے تجاوز نا کریں، خود کو روکیں کسی پہ جھوٹے الزماات، گندے القابات، بہتان تراشیاں اور گند اچھالنے سے گریز کریں۔
وہ زمانے لد گئے جب بڑے آپس میں بات کرتے ہوئے بچوں کو اٹھا دیا کرتے تھے۔ اور بعد میں ساری عمر یہی تکرار کرتے گزرتی تھی کہ تم غلط سمجھ رہے ہو جبکہ صحیح بات انہیں وقت پہ بتائی ہی نہیں گئی۔
تو دوستو یہ زندگی ھے یہ ہماری اپنی اولاد ھے ان کو raise کریں آگے بڑھائیں انہیں اپنا آلہ کار نا بنائیں۔ یہ انسان ھیں۔ مٹی کے مادھو نہیں ھیں گونگے، بہرے، اندھے، اپاہج نہیں ھیں۔ان کے پاس بھی دل ہے، دماغ ہے، جذبات ہیں، احساسات ہیں۔
سوال تھا اولاد کی شادی کہاں کریں تو شادی وہیں کریں جہاں ان کے دل خوش ہوں اور ان کے دلوں کو خوش کس بات پہ ہونا ہے اس کا انحصار آپ کی تربیت پہ ہے آپ نے ان کو کیا سیکھایا ہے کیا سمجھایا ہے۔ اور اپنے عمل سے کیا ثابت کیا ھے۔
ظاہریت ؟
خالی خوبصورتی پہ ریجھنا؟
مادیت پسندی ؟
دولت پہ جا کے سجدہ کرنا۔
سٹیٹس کے پجاری بننا۔
یا باطن کی آنکھ کھلی رکھ کے دوسرے کے باطن کو پہچاننا۔
یا اپنی صلاحیتوں پہ بھروسہ کرنا۔
یا دوسرے کی قدر کرنا۔
اور خود کو دوسرے ساتھی کے لیے نفع بخش بنانا۔
دوستو اصل میں سب رشتے اسی لیے ہیں کہ ہم انہیں raise کریں سپورٹ کریں آگے بڑھائیں ہم نے سمجھ لیا ھے کہ رشتے اس لیے ہیں کہ ہم انہیں استعمال کریں یا پھر ان کی زندگی میں روڑے اٹکائیں، ان کے راستے میں پتھر پھینکیں۔
دوستو! رشتے دار ایک سپورٹ سسٹم ہیں۔
تو اپنے بچوں کو معاملات بتائیں۔
اور جہاں اختلافات رہے ہوں وہاں بچوں کے رشتے نا کریں۔ جنہوں نے زیادتیاں کی ہوں وہاں بچوں کی شادیاں نا کریں۔
جن سے دل خراب رہے ھوں وہاں بچوں کی شادیاں نا کریں۔
اس لیے کہ ماضی کی تلخیاں بچوں کی زندگیوں پہ اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
بچوں کو خاندان جوڑنے کا ٹول نا سمجھیں کہ میرے بھائی یا بہن کے گھر شادی کرو خاندان جڑا رہے گا۔
بچوں کو بدلہ لینے کا ہتھیار نا بنائیں کہ فلاں رشتے دار کی لڑکی لا کے زلیل کریں گے یا اپنی لڑکی بھیج کے بھاوج کو ناکوں چنے چبوائیں گے۔
بچوں کی شادیوں کو بزنس ڈیل نا بنائیں کہ بزنس پارٹنر کے گھر شادی کریں گے تو نفع ہوگا۔
نا ہی دوستی کی مضبوطی کے لیے آلہ کار بنائیں کہ دوست کی لڑکی لے آوں دوستی مضبوط ہو گی۔
بچوں کی شادی لالچ میں نا کریں کہ فلاں کی جائیداد ہمارے گھر آجائے گی۔
جس بچے کی شادی کر رہے ہیں اس کی طبیعت، مزاج، میلان کو سامنے رکھ کے اس کی بہتری کے لیے شادی کریں نا کہ اپنی بہتری۔
اور جس کو بہو بنا کے لائیں یا داماد بنائیں اس کی عزت کریں۔ اور اولاد کو ان کی زندگی میں آزاد چھوڑ دیں۔ اپنی تربیت پہ بھروسہ کریں۔( اگر تربیت کی ہو تو)
اولاد کا دم نا گھوٹیں انہیں جینے دیں.