fbpx
بلاگ

ہم بچے کیوں پیدا کرتے ہیں ؟ / سعدیہ مظہر

ہم بچے کیوں پیدا کرتے ہیں؟

سوال ہے ہی عجیب ، کبھی سوچا آپ نے بھی کہ آپ کو بچہ کیوں چاہئے؟
اپنی طبعی صلاحیتوں کو منوانے کے لیے؟
نسل چلانے کے لیے؟
بزرگوں کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے؟
وغیرہ وغیرہ

ہم میں سے کتنے لوگ یہ سوچ کر بچہ پیدا کرتے ہیں کہ انہیں بذات خود ایک ہنستا مسکراتا نیا وجود چاہیے، جس کا لمس انہیں تروتازہ رکھے، جس کی مسکراہٹ پر وہ سو سال قربان کر سکیں۔
جس کو وہ دولے شاہ کا وہ چوہا نا بننے دیں ، جس کے سر پر خول چڑھا دیا جاتا ہے۔
نا سوچنے کی آزادی ،نا کہنے کی اور نا ہی اس کے وجود کی اہمیت۔
ہم میں سے کتنے لوگ والدین بننے سے پہلے ، والدین ہونے کی ذمہ داریوں کو پڑھتے ، سمجھتے اور سیکھتے ہیں؟

کراچی سے لاہور آتے ہوئے، پی آئی اے کی پرواز نے ہمیں جوائینٹ فیملی والا ماحول دیا۔ ماشاءاللہ بچے ہی بچے تھے۔
ایک خاندان جو میری توجہ کا مرکز رہا بلکہ سب کی توجہ کا مرکز
وہ میاں بیوی جو 35 سال تک کے ہونگے اور ان کے تین عدد بچے تھے۔
بچے ماشاءاللہ ایک ایک سال کے وقفے سے پیدا شدہ تھے۔
سب سے بڑی بیٹی 3 سال کی تھی ۔ اور مسلسل روئے جا رہی تھی۔ وہ ماں کے بغیر ایک لمحہ نہیں گزار رہی تھی۔
ماں کی گود میں دوسری بیٹی اور باپ کی گود میں بیٹا تھا۔
میرے لیے اہم تین سال کی بچی تھی میری توجہ اس پر تھی۔ اس کی شخصیت کی دھجیاں بکھیر دی گئیں ، اسے تین سال کی عمر میں ہی  بڑی بہن بنا کر۔
وہ اپنے والدین کی توجہ کا مرکز ہر گز نہیں تھی۔
بلکہ یہ بات بھی واضح تھی کہ گھر میں اسے مار تک پڑتی ہوگی۔  کیونکہ والدین لوگوں کے درمیان بظاہر اچھا بننے کی کوشش میں اسے پیار سے چپ کروا رہے تھے مگر  آنکھوں سے پڑتی گھوریاں ان کا رویہ سمجھانے کے لیے کافی تھیں۔
جہاز سے اترتے وقت بھی وہ بچی مسلسل گود میں اٹھانے کی ضد کرتی رہی مگر دونوں کی گودوں میں بچے تھے اس لیے اس پر مسلط کیا گیا کہ وہ بڑی ہونے کا ثبوت دے۔

میں اس بچی کو بھول نہیں سکتی کیونکہ یہ طے ہے کہ وہ بڑی ہو کر  بہت شدت پسند ہو گی ، یابہن بھائیوں سے بھی اہنا رشتہ درست استوار نہیں کر پائے گی۔یا پھر شاید احساس کمتری کا شکار ہو جائے۔
یا پھر والدین کی بے ادب اولاد قرار دے دی جائے گی۔

لیکن یہ کوئی نہیں مانے گا کہ اس بچی کو اس کے ہونے کا حق دیا ہی نہیں گیا۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے