fbpx
بلاگ

ہجوم آئینوں پر پتھر پھینکتا ہےــ‘‘

’’ہجوم آئینوں پر پتھر پھینکتا ہےــ‘‘

’’دیکھنا کہ حالات اب کتنی سرعت سے بدلیں گے۔ اس بار جو شریف آیا ہے وہ شریف ہی نہیں منتظم بھی بہت اچھا ہے۔‘‘

محفل میں موجود کسی نے یہ بات کہی اور بہت سوں نے اس کی تائید کی۔ اسی محفل میں ایسے بھی تھے جو شریف کو شریف نہیں چور کہتے تھے۔ ان کا ایمان تھا کہ مملکتِ خداداد کو ریاستِ مدینہ بنانے کی سعادت صرف اور صرف اس کو حاصل ہو گی جو صادق اور امین ہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے، جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، صادق و امین اور شریف کے حامیوں میں گرما گرم بحث نے شدت اختیار کر لی۔ صاحبِ خانہ کا لحاظ اگر مانع نہ ہوتا تو یہ لوگ ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے سے بھی گریز نہ کرتے۔ صاحبِ خانہ خود مبینہ مسٹر دس فیصد کا حامی تھا لیکن ان دنوں شریف اور صادق و امین کے حامیوں کے بیچ کی تو تو میں میں سے دل ہی دل میں لطف اٹھایا کرتا تھا اور ایسے سیاسی مباحث میں کم ہی حصہ لیتا تھا۔

اسی محفل میں ایک خاموش شریکِ محفل بھی تھا۔ وہ ایسی بار بار کی کہی گئی اور سنی ہوئی باتوں پر اپنی طنزیہ مسکراہٹ پھینکتا مگر خاموش رہتا تھا۔ وہ یہاں موجود اکثر لوگوں سے زیادہ پڑھا لکھا اور صاحبِ مطالعہ شخص تھا اور اس بات پر دکھی تھا کہ ریاست نے اس کے ہم وطنوں کی اکثریت کو ذہنی طور پر بالغ ہی نہیں ہونے دیا تھا۔ سفید ریش لوگ بھی اور ڈگری یافتہ لوگ بھی بڑے اعتماد سے بے شعور باتیں کیا کرتے تھے۔ ایسے لوگوں سے اب بھلا کیا بات کی جائے، تو یہ سوچ کر وہ خاموش رہتا۔ ہاں کبھی کبھی اس کی خاموشی کو کوئی ایسا نوجوان توڑنے کی کوشش ضرور کرتا جو ہجوم سے ذرا الگ ہو کر حقیقت جاننے کا خواہاں ہوتا۔ اس روز بھی کسی نے اسے مخاطب کرتے ہوئے اظہارِ خیال کی دعوت دی تو اس نے گلا صاف کرتے ہوئے کہا:

’’آپ سب جن کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں ان کے پاس تو اختیار ہے ہی نہیں کہ کچھ کر سکیں۔ چاہے کوئی بھی آ جائے، نہ بجلی سستی ہو گی نہ پٹرول، نہ مہنگائی ختم ہو گی نہ روپے کی قیمت بڑھے گی۔ جب تک آپ یہ نہیں جانیں گے کہ اس ملک کا پیسہ خرچ کہاں ہوتا ہے اور جب تک اس خرچ کو روکا نہیں جائے گا اس وقت تک ۔۔۔۔ حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔‘‘

تو پھر اختیار کن کے پاس ہے؟ ۔۔۔ کسی نے بے تابی سے پوچھا۔

’’کتوں کے پاس۔ صاحب بہادر کے وفا دار کتوں کے پاس۔‘‘

’’آپ کھل کے بات کیجیے۔‘‘ کسی مردِ مجاہد نے آستینیں چڑھاتے ہوئے اسے للکارا۔

وہ اس للکار کو سن کر مسکرایا اور صاحبِ خانہ سے معزرت کرتا ہوا محفل سے اٹھ کر باہر چلا گیا۔

اس کے جانے کے بعد وہ سب جو کچھ دیر پہلے تک ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونتے ہوئے تھے، اب ان کے ہاتھوں میں پتھر تھے اور ان کا نشانہ وہ تھا جو یہاں سے جا چکا تھا۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے