چند برس قبل کلٹ کا لفظ سماعت سے گزرا اور اب متواتر سننے میں آرہا ہے پہلی دفعہ سننے میں ہی بہت عجیب سا محسوس ہوا مکمل طور پر نہ جانتے ہوئے بھی یوں لگا کہ جیسے یہ ایک گالی ہو ۔ پھر فیس بک پر ایک تحریر نظر سے گزری جو نگہت نسیم صاحبہ Nighat Nasimکی لکھی ہوئی تھی ۔اس میں انہوں نے کلٹ کے لیڈر کی خصوصیات بیان کی تھیں ۔ ا س کے بعد نیٹ فلکس پر کسی نے ایک کلٹ کا لیڈر کیسے بنتا ہے کا ذکر کیا
اس قسط وار تاریخی دستاویزی پروگرام میں بہت تفصیل سے کلٹ کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔جو حیرت انگیز طور پر آج کے مذہبی اور سیاسی کلٹ سے ملتی جلتی ہے ۔ اب یہ فیصلہ نیوٹرل طریقے سے آپ نے خود کرنا ہے کہ آپ کس حد تک نرگسیت اور کلٹ کا شکار ہیں ۔
سب سے پہلے میں نگہت نسیم صاحبہ کے مضمون کا خلاصہ کچھ ردو بدل کے ساتھ پیش کرتی ہوں ۔ ہم سب کو دیکھنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی تو کسی کلٹ کا حصہ تو نہیں بن رہے ؟ یہ زندگی بہت مختصر ہے ۔ عقل شعور اور سوچ سمجھ ہر انسان کو اللہ نے ودیعت کی ہے اسے کسی دوسرے کا تابع کرنے ، غلامی قبول کرنے اور عزت نفس مجروح کرنے کا کسی کو بھی اختیار نہیں دیا جاسکتا ۔
اسے ثواب ، گناہ ، نجات وغیرہ سے جوڑنا آج کے دور میں انتہائی عجیب و غریب سمجھا جانا چاہیے ۔کلٹ کے زیادہ تر لیڈر ڈیماگوگ شخصیت کےمالک ہوتے ہیں۔ یہ اپنے ماننے والوں کےجذبات سے کھیلنا جانتے ہیں اور خاص طور پرخوف اورتعصبات سے لبریز ہوتے ہیں ۔ جھوٹی بیان بازی کےماہر ہوتے ہیں ۔ مریدین کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کیلئے مخالف گروپ پر اپنی تقاریر اور بیانات سےحملے کرتے ہیں۔ان کے اسیر انہیں نجات دہندہ تسلیم کرتے ہیں جو غاصبوں کو تباہ کرے گا انھیں ان کا معاشرے اور دنیا میں بہتر مقام دلائے گا۔
یہ لوگ ناخوش اور ناراض ہوتے ہیں،اور جب وہ پرجوش تقریریں سنتے ہیں جو انھیں مذہب اور سیاست یا مذہب بدعنوانوں سے نجات دلانے اور ان کے مصائب کے آسان حل فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں توان کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔اپنی جوشیلی مگرعقل وفہم سے عاری تقاریر کے ذریعے لوگوں کوقائل کرنےکی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
غیراصولی مقبول خطیب یا راہنما ہوتے ہیں جو اپنی اخلاقی گراوٹ چھپا کر تعصبات, خواہشات, اور جذبات سےکھیل کر سیاسی و مذہبی طاقت سے ذاتی مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھے ۔ ان کے مقاصد میں طاقت و اقتدار کا حصول بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔اس لئے سیاست میں نمایاں حصہ ڈالتے ہیں ۔ ان کی نظر ہر اس علاقے پر ہوتی ہے جہاں قدرتی وسائل موجود ہو۔
ہٹلر ،مسولینی ، جیمز ،جانز ، کیتھ، رینیئر ،چارلس ،مینسن وغیرہ اسی قبیل کے راہنماوں میں شمار ہوتے ہیں ۔
ڈیماگوگ کے الفاظ جتنے غصے اورنفرت انگیز ہوتے ہیں ان کی مقبولیت ان کے ساتھیوں میں اتنی ہی زیادہ بڑھتی ہے۔
ڈیماگوگز ملک کے اندر اور باہر ان لوگوں کے خطرات کے خلاف غصہ نکالتے ہیں جنھیں ان ڈیماگوگ لیڈرز نے معاشرے میں بدحالی کا "سبب” بتایا ہوتا ہے۔
وہ اپنے پرجوش حامیوں کوان اہداف کےخلاف اپنی مہم جوئی میں شامل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس کیلئے وہ جدید سیاسی ٹیکنیکس کا استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ بڑے پیمانے پر ریلیوں، ٹی وی اوردیگر ماس میڈیا کے ذرائع پرخطابات و تقریریں شامل ہیں۔
ڈیماگوگ نرگسیت (narcissistic) اور آمرانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈھیٹ اور جنگجو بھی ہوتے ہیں۔ایسے تمام گروہوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ ہے اپنے راہنما کی اندھی تقلید اور پرستش، ان کی ذہن سازی کا عمل راہنما کو غیر معمولی اثر و رسوخ عطا کرتا ہے، اور پھر یہ گروہ تباہی پھیلاتے ہیں، لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔‘
وہ اپنے پر جوش پیروکاروں میں تعصب، نفرت، اور زینوفوبیا کے جذبات کے ساتھ جذباتی آگ کو ہوا دیتے ہیں۔
ڈیماگوگ کی شخصیت میں یہ traits ملتے ہیں۔
1-جانی مالی قربانی کے لئے اکسانا
2-خوف پیداکرنا۔
3 جھوٹ بولنا۔
4-جذباتی تقاریر
5-مخالفین پرالزام لگانا۔
6- ناممکن کاوعدہ کرنا۔
7-تشدداورجسمانی دھمکیاں۔
8- دوسروں کی توہین اورتضحیک
9 برین واشنگ کے حربے
10 عقیدت تقدس اور شخصیت پرستی میں جکڑ دینا
11 اپنی شخصیت کو پاکباز اور روحانیت کے لبادے میں لپیٹ کر رکھنا
12 بار بار اطاعت اور فرمانبرداری کا درس دینا اور اس کا عہد لینا
یہ تو ہوگئی شخصیت کی تعریف اب دیکھنا یہ باقی ہے کہ ان کا طریقہ واردات کیا ہوتا ہے اور کن حربوں سے عوامی مقبولیت حاصل کرتے ہیں ۔ چند ایک شخصیات جنہوں نے کلٹ کی بنیاد رکھی ان کا بھی ذکر ہوگا ۔ جاری ہے ……..