تصاویر : حسین عابد
تحریر : بصیرت فاطمہ
نظم : گلزار
پومپیئے یونیسکو کا عالمی ثقافتی ورثہ ہے اور اٹلی میں سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ پرکشش مقامات میں سے ایک ہے، جہاں سالانہ تقریباً 2.5 ملین سیاح آتے ہیں۔
تقریباً 2,000 سال پہلے، پومپیئےایک ہلچل مچانے والا شہر تھا جو اب جنوبی اٹلی میں واقع ہے۔ لیکن 79 عیسوی کے موسم گرما میں، قریبی پہاڑ ویسوویئس سے آتش فشاں پھٹ پڑا۔ اس نے دھواں اور زہریلی گیس ہوا میں 20 میل تک پھیلا دی، جو جلد ہی شہر میں پھیل گئی۔ تقریباً راتوں رات پومپیئے اور اس کے 10,000 رہائشیوں میں سے بہت سے راکھ کے کمبل کے نیچے غائب ہو گئے۔
بنیادی طور پر یہ شہر کھو گیا تھا اور اسے 1748 میں دوبارہ دریافت کیا گیا۔ کھدائی کے بعد سائنس دان تقریباً اس بات کا اندازہ لگانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ اس خوفناک دن کیا ہوا تھا
پومپئیے کے کھنڈرات کا دورہ کرنا وقت میں واپس جانے جیسا ہے۔ راکھ کی تہوں نے عمارتوں، آرٹ ورک، اور یہاں تک کہ لاشوں کی شکلوں کو محفوظ رکھنے میں مدد کی۔ جب لاشیں گلی سڑیں تو وہ راکھ میں اپنے نشانات چھوڑ گئیں۔ ان نشانات میں پلاسٹر بھر دینے کے بعد مکمل تفصیلات حاصل کی گئیں۔ وہ تمام چیزیں جنہوں نے ماہرین کو ان تفصیلات کو پُر کرنے کی اجازت دی جو بہت سی دوسری رومن سائٹوں پر باقی نہیں رہیں تھیں ۔۔
انہوں نے جو کچھ دریافت کیا اس کی بنیاد پر، سائنس دانوں کا خیال ہے کہ پومپئیے ایک خوشحال شہر تھا جو چھٹیاں گزارنے والے امیر رومیوں میں مقبول تھا۔ پیدل چلنے والوں کو کیچڑ سے دور رکھنے کے لیے اچھی پکی گلیوں میں اونچے فٹ پاتھ اور قدم رکھنے والے پتھر لگائے گئے تھے۔ آرام کرنے کے لیے، لوگ عوامی حماموں میں موسم گرما میں ٹھنڈے اور سرما میں گرم پانی لطف اٹھاتے۔ ایک ایمفی تھیٹر میں شمشیر زنی یا رتھ ریس( رتھ سیک خاص قسم کی سواری تھی )بھی دیکھتے ۔اور دیگر دو تھیئٹرز میں ڈراموں سے لطف اندوز بھی ہوتے۔
سائنسدانوں کو یقین ہے کہ ماؤنٹ ویسوویئس ایک اور بڑے دھماکے کے لیے تیار ہو رہی ہے ۔خوش قسمتی سے آج آتش فشاں کے قریب رہنے والے لوگوں کو ممکنہ طور پر اس کے پھٹنے سے پہلے انخلاء کی وارننگ مل جائے گی۔ اور لوگوں کو جانی نقصان سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
پومپیئے پر گلزار کی ایک نظم
پومپیئے
گلزار
پومپیئے دفن تھا صدیوں سے جہاں
ایک تہذیب تھی پوشیدہ وہاں
شہر کھودا تو تواریخ کے ٹکڑے نکلے
ڈھیروں پتھرائے ہوئے وقت کے صفحوں کو الٹ کر دیکھا
ایک بھولی ہوئی تہذیب کے پرزے سے بچھے تھے ہر سو
منجمد لاوے میں اکڑے ہوئے انسانوں کے گچھے تھے وہاں
آگ اور لاوے سے گھبرا کے جو لپٹے ہوں گے
وہی مٹکے، وہی ہاندی، وہی ٹوٹے پیالے
ہونٹ ٹوٹے ہوئے، لٹکی ہوئی مٹی کی زبانیں ہر سو
بھوک اس وقت بھی تھی، پیاس بھی تھی، پیٹ بھی تھا
حکمرانوں کے محل، ان کی فصیلیں، سکے
رائج الوقت جو ہتھیار تھے اور ان کے دستے
بیڑیاں پتھروں کی، آہنی، پیروں کے کڑے
اور غلاموں کو جہاں باندھ کے رکھتے تھے
وہ پنجرے بھی بہت سے نکلے
ایک تہذیب یہاں دفن ہے اور اس کے قریب
ایک تہذیب رواں ہے،
جو مرے وقت کی ہے
حکمراں بھی ہیں، محل بھی ہیں، فصلیں بھی ہیں
جیل خانے بھی ہیں اور گیس کے چیمبر بھی ہیں
ہیروشیما پہ کتابیں بھی سجا رکھی ہیں
بیڑیاں آہنی ہتھکڑیاں بھی اسٹیل کی ہیں
اور غلاموں کو بھی آزادی ہے، باندھا نہیں جاتا
میری تہذیب نے اب کتنی ترقی کی ہے