خضر کو گزرے سات دن ہوگئے تھے ۔گاؤں نہ ڈوبتا۔۔۔تو آج اس کا ساتواں ہوتا۔۔
گاؤں نہ ڈوبتا تو خضر بھی نہ ڈوبتا۔
بارش برستے دس دیہاڑے ہوگئے ۔دس دنوں میں اگر سورج آیا بھی تو صرف زمین سے پانی اٹھانے کو ۔
اکرم پتہ نہیں کیسے اپنے قد سے بھی اوپر پانی میں گاؤں کی تلاشی لے کر آجاتا ہے۔ورنہ رستے تو ہاتھ کی لکیروں میں قسمت کی طرح ڈوب چکے ہیں ۔
بتارہا تھا پچھلے ٹیلے پہ جہاں خضر کو دفن کیا تھا اب تو وہاں بھی بندہ بندہ پانی ہے۔۔۔۔
پتہ نہیں ۔اب خضر وہاں ہو گا بھی کہ نہیں ۔؟
بہاؤ۔۔جیتی جاگتی بھینسیں لے گیا تو موئے بندے کی کیا اوقات ۔۔۔!؟
میں نے خضر کا ہاتھ پکڑ کر ترلے بھی کئے
” نہ جا ” نہیں مانا ،مانتا بھی کیسے
اس کا دوسرا ہاتھ موت پکڑے کھینچ رہی تھی ۔
ہم چاروں کو اُچے ٹیلے پہ بٹھا کے کہنے لگا۔۔۔”یوں گیا اور یوں آیا ”
مائی روکتی ہی رہ گئی۔
اس کی عمر بھر کی پونجی اپنی پونجی بچانے نکل گئی ۔
گاؤں سےمیل بھر آگے خضرکی لاش جھاڑیوں میں اٹکی ملی ۔گوڈے گوڈے بارش میں گاؤں والوں نے جیسے تیسے دفنا دیا ۔
"لے چاول کھا لے۔ ”
اکرم نے شاپر بڑھایا۔چاول پکڑاتے ہوئے بھی اکرم کا دھیان دودھ پیتے منے میں تھا۔
اکرم کی شکل پہ ہی نہیں ۔اس کےڈیلوں میں بھی سور کا بال ہے اکرم ،۔خضر کا مسیر تھا ۔اس کی حیاتی میں بھی گھر آتا تو خضر اس کے سامنے آنے سے منع کردیتا ۔
مگر اب اسی بے کرتوتے کے آسرے پہ تھی ۔
منا تین دن سے خالی چھاتیاں چچوڑے جا رہا ہے۔ذرا پرے کروں تو رو رو کر اپنا برا حال کر لیتا ہے ۔
کچھ پیٹ میں کچھ جائے تو دودھ اترے ۔۔
پچھلے ٹیلے سے بھاگتے ہوئے پاؤں میں موچ آئی تو اکرم نے ہی مجھے سہارا دیکر اس ٹیلے تک پہنچایا ۔
ایک بازو کا سہارا دیکر دوسرے ہاتھ سے دبایا تو اس کا ہاتھ بھر گیا تھا،
موئے بھرا کی عزت کا بھی نہیں سوچا ۔اسی لئے تو رقبوں سے زیادہ آنکھ میں پانی ہے ۔پر بچے کے لئے دوبوندیں نہیں اتر رہیں ۔
اکرم کہیں سے بہتی ہوئی منجی بھی لے آیا۔مائی کو بیٹے کی موت اور لاچاری ہلنے نہیں دے رہی اور میرا پاؤں بھی سوج رہا ہے.
چنانچہ نونہہ سَس چارپائی پہ سارا دن بھیگتی رہتیں ہیں۔
مچھر جینے نہیں دے رہے ۔دوپٹہ منے پہ لپیٹوں تو آتے جاتے مرد گھورتے ہیں. اور خود کو، ڈھک لیتی تو مچھر کاٹ کاٹ کر بچے کے جسم پہ چٹاخ بنادیتا ۔
تارہ تیرہویں میں ہے ۔مجال ہے جو زرا عقل مَت ہو ۔شلوار لبیڑے ادھر ادھر سارا ٹیلہ پھررہی ہے ۔بڑی ہورہی ہے ۔نری ڈنگر ہے،نہ بھوک پہ کنٹرول ہے نہ اپنے آپ پہ ۔
کوئی کھانا لے آئے فورا ان کے پاس جابیٹھتی ہے. دھڑکا ہی لگا رہتا ہے.
دوبار اکرم کے ساتھ منے کیلئے دودھ اور مائی کی دوائی ڈھونڈنے گئی ۔
۔ وسوسوں نے ایک گھنٹے میں ادھ مرا کردیا ۔
پاؤ بھر کا ڈبہ ملا ۔تو منے کی بجائے مائی کو پلادیا ۔بخارمیں تو اب اس کے حلق سے چاول بھی نہیں اترتے ۔
۔دوائی پھر بھی نہیں ملی ۔
اکرم دو تین بار گیا ۔اب دوائی کی بجائے سامان کے توڑے لے آتا ہے ۔
تین توڑے ہوگئے ۔اوکھی سوکھی ہوکے کھول کر دیکھے تو دودھ ان میں بھی نہیں تھا ۔
اکرم ترپال ڈھونڈنے گیا ہے ۔اللہ نہ کرے اسے ترپال ملے ۔ اسے ترپال مل گئی ،دو نوالے چاولوں کی قیمت وصول کرے گا ۔
سارے ٹیلے والے اس بغیرت کو میرا دیور سمجھتے ہیں.
دس بار اس کی منت کی کہ کسی بندے کو ساتھ ملا کے مائی شہر تک لے جا ۔
مگر وہ کمینہ جانتا ہے کہ بیٹی بیٹا،ساس میری بیڑیاں ہیں ۔
پچھلے وَرے۔۔۔سیلاب آیا تو سارا پیکہ پنڈ بہہ گیا۔۔۔تب اِدھر۔۔اتنا پانی نہیں آیا تھا۔۔۔گاؤں نے خود ہی دوڑ بھاگ کرکے۔۔۔خود کو بچا لیا۔۔۔پر اب۔توجیسے زمین آسمان پھٹ پڑے ۔دور دور تک بندہ ہے نہ بندے کی ذات۔۔۔اب تو منے کی ریں ریں بھی باریک ہوگئی۔
کتنی دیر ہوگئی مائی نے پاسہ نہیں پلٹا۔ہائے بھی نہیں کی ۔ ماڑی جان سانس بھی لے رہی ہے کہ نہیں ۔؟
پہلے مائی کا روٹی کے بناء گزارہ ہوجاتا تھا۔پرڈاکٹر کی ُپُڑیوں کے بغیر نہیں ۔ ڈاکٹر سیانہ تھا،سیلاب سے پہلے ہی نکل گیا ۔پچیس تیس لوگ ٹیلے سے چلے گئے ہیں ۔
اب تارہ ۔۔۔کیچڑ میں بیٹھی بس ادھر ادھر دیکھتی رہتی ہے ۔چار ڈگ بھرے تو ٹیلا ختم ہوجاتا ہے ۔اچھا ہے،کیچڑ سو داغ چھپالیتا ہے ۔
سچ کہا ہے کسی نے، مٹی پاک ہوتی ہے ۔شروع میں نہ آنکھیں سوکھیں نہ بارش ُرُکی ۔اب پانی بھی گہرا ہوتا رہا اور مقدر بھی۔
پیاس کے مارے منے کی آواز بھی باریک پڑنے لگی ہے ۔اب مچھر کے کاٹنے پہ تڑپتا بھی نہیں۔
ایک جان جو میرے اندر پل رہی ہے۔جانے وہ کس حال میں ہے ۔
اب میں دعا بھی نہیں مانگتی۔۔۔۔
سوچتی ہوں کیا دعا مانگوں
اس مائی کے بچنے کی جو اب جینا ہی نہیں چاہتی ۔ اس بچے کی زندگی کی جسے میری گود میں آنا ہے ۔۔۔یا اس کیلئے جو میری گود سے جانے والاہے ۔؟