
وائیس WOICE خواتین کی فلاح و ترقی اور ان میں شعور و آگاہی کے فروغ کے لیے سرگرم ایک ادارہ ہے جو ایسے مسائل پر کام کر رہا ہے جنہیں عمومی طور پر دیگر این جی اوز نظر انداز کرتی ہیں۔ ان مسائل میں سب سے نمایاں خاندانی زندگی کو درست سمت میں لے جانا ہے، جس کے لیے سیمینارز اور آن لائن سیشنز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ وائیس اس حقیقت کو سمجھتا ہے کہ ایک مضبوط اور مستحکم خاندانی نظام ہی ایک بہتر معاشرے کی بنیاد بن سکتا ہے۔
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر وائیس نے فلیٹیز ہوٹل میں انٹرنیشنل ویمن سمپوزیم کا انعقاد کیا، جس میں خواتین کی شادی سے قبل تربیت، صحت کے مسائل، جذباتی ذہانت، تنازعات کے حل، اور جبری شادی جیسے اہم موضوعات پر گفتگو کی گئی۔ اس پروگرام میں محض خواتین کے حقوق پر ہی بات نہیں کی گئی، بلکہ ان تمام عناصر پر بھی غور کیا گیا جو ان کے تحفظ اور ترقی کے لیے ضروری ہیں۔
پروگرام میں شرکت کرنے والے پینلسٹس نے انتہائی مؤثر اور معلوماتی گفتگو کی۔ معزز مہمانوں میں شامل تھیں:
جہان آرا وٹو – نائب چیئرپرسن، پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی، سابق ایمبیسڈر برائے بچوں کے حقوق
فرح ناز – صدر، منہاج القرآن ویمن لیگ
صباحت رضوی – وکیلِ سپریم کورٹ، پہلی خاتون سیکرٹری، لاہور ہائی کورٹ بار
کرن محبوب – ماہرِ نفسیات، معلمہ، انسانی حقوق کی وکیل، نیشنل پروگرام کوآرڈینیٹر
کنزہ کمال خان – یوتھ ڈیولپمنٹ ٹرینر
نشابہ ستار – وکیل، سماجی کارکن، فلم میکر
تسابے ربیکا زینب – ویلفیئر کنسلٹنٹ، سوشل امپیکٹ اسٹریٹیجسٹ
قرۃ العین شعیب – پالیسی ایڈوائزر، سماجی و نفسیاتی ترقی کی ماہر، کالم نگار
ڈاکٹر شاہدہ مغل – بانی و صدر، شعور ویلفیئر فاؤنڈیشن
مریم جیمز گل – انسانی حقوق کی وکیل
عمارہ رندھاوا – ویمن چیمبر آف کامرس کی رکن
اس پروگرام میں منہاج ویمن لیگ کی بھرپور شرکت رہی، جبکہ مختلف این جی اوز، خواتین صحافی، سوشل ورکرز، معلمات، ڈاکٹرز، ادبی شخصیات اور مختلف اداروں کی سربراہان نے بھی بھرپور انداز میں شرکت کی۔
تجاویز و مطالبات
پروگرام کے اختتام پر وائیس پراجیکٹ کی ہیڈ، عائیشہ مبشر نے چند اہم تجاویز پیش کیں، جنہیں ایک باضابطہ ڈکلیریشن کہا جا سکتا ہے:
1. خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ریاستی سطح پر بنائے گئے قوانین، جیسے کہ Protection Against Harassment of Women at Workplace Act, 2010 اور The Punjab Protection of Women against Violence Act, 2016 پر یونین کونسل کی سطح تک موثر عمل درآمد کے لیے واضح لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔
2. امہات المؤمنین، صحابیات اور اہل بیت اطہار کی خواتین، جنہوں نے جہالت کے دور میں خواتین کی بیداری، شعور، فروغِ علم اور ظلم و استبداد کے خلاف عملی جدوجہد کی، ان کے حالاتِ زندگی کو نصاب میں شامل کیا جائے۔
3. ہر ٹاؤن کی مسجد کو کمیونٹی سینٹر میں تبدیل کیا جائے، جہاں خواتین اور بچیوں کے لیے ایک مخصوص حصہ مختص ہو۔ دینی تعلیم کے لیے حکومت فی میل معلمات کو پرکشش معاوضے پر تعینات کرے۔
4. اخلاقیات (Ethics) کو ایک علیحدہ مضمون کے طور پر پرائمری سطح پر لازمی قرار دیا جائے۔
5. حکومتی سطح پر صوبائی اور مقامی حکومتی نمائندگان علاقائی کمیونٹی سینٹرز یا مساجد میں خصوصی مدر ٹریننگ پروگرامز کا اجرا کریں۔
6. سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے دیہی اور دور دراز علاقوں میں بچیوں کی دینی، عصری اور فنی تعلیم کے فروغ کے لیے ریاست اور فلاحی ادارے مل کر سہ ماہی بنیادوں پر آگاہی مہمات چلائیں اور عملی تربیت کے ادارے قائم کیے جائیں۔
7. جیلوں میں قید خواتین کی بحالی اور وہاں پیدا ہونے والے بچوں کو معاشرے کا مفید رکن بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
8. تھانوں اور عدالتوں میں خواتین کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے خصوصی ویمن کورٹس قائم کی جائیں۔
9. گھریلو ملازمت میں کام کرنے والی کم عمر بچیوں کی تعلیم و تربیت کو یقینی بنانے کے لیے گھر کے مالکان پر قانونی ذمہ داری عائد کی جائے۔
10. Prohibition of Forced Religious Conversions Act, 2019 پر موثر اور آسان عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
11. گھریلو تشدد کا شکار خواتین کے لیے Women Rehabilitation Centers کا قیام عمل میں لایا جائے۔
12. خواتین کے محفوظ سفری حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ڈولفن فورس کی طرز پر اینٹی ہراسمنٹ اینڈ ابیوز فورس تشکیل دی جائے
یہ تجاویز خواتین کے حقوق، ان کے تحفظ اور سماجی ترقی کے لیے ایک مؤثر حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہیں۔