مذاق ہے کیا؟؟
دوران ملازمت فوت ہو جانے والے سرکاری ملازمین کے حوالے سے حکومت پنجاب نے اپنی نئی پالیسی متعارف کرائی ہے جس کے مطابق
1: دوران ملازمت وفات پا جانے والے کسی بھی سرکاری ملازم کے بچے کو ملازمت نہیں دی جائے گی۔
اس کے متبادل کے طور پر
"دوران سروس وفات کی صورت میں اس کے لواحقین کو 50 لاکھ سے دو کروڑ تک کی گرانٹ دی جائے گی”
سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت پنجاب کے تھنک ٹینکر اتنے بے وقوف کیوں ہیں۔انہوں نے عوام کو بھکاری بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے یا سرکاری ملازمین کو ان ہی کی اولاد کے ہاتھوں مار دینے کی سازش ہے یہ؟کیا یہ کوئی بھی پالیسی بناتے وقت ان کے نتائج پہ زرا برابر بھی توجہ نہیں کرتے؟
ایک طرف تو یہ حکومت سرکاری ملازمین کی پنشن ختم کرنے کے درپئے ہیں جس پر ان کی بقیہ زندگی کا دارومدار ہوتا اور جس کے آسرے پہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد (جب کہ ان کی عمر آرام کرنے کی ہوتی ہے) اپنی بقیہ زندگی گزارتا ہے۔ اولاد بھی والدین کو بوجھ نہیں سمجھتی اور وہ خودداری کے ساتھ اپنی ہی پنشن پہ زندگی کی گاڑی مرتے دم تک قدرے سکون کے ساتھ سہولت سے چلائے رکھتے ہیں۔
یہ حکومت ایک طرف ان سے آخری عمر کا یہ سہارا بھی چھین لینا چاہتی ہے اور دوسری طرف لاکھوں سے کروڑوں تک کا لالچ دیکر ان کی جان کو خطرے میں ڈالنے کی گھناونی کوشش کر رہی ہے۔ہم سب جانتے ہیں پیسہ کتنی بڑی طاقت ہے جو بھائی کو بھائی سے لڑوا دیتا ہے بہن بھائیوں کو ایکدوسرے کا جانی دشمن بنا دیتا ہے۔ بےروزگاری ،مہنگائی، لالچ،بےحسی اور سفاکیت کے اس دور میں کسی ملازم کی وفات پر پچاس لاکھ سے دو کروڑ روپے کی گرانٹ دینے کے اس اعلان کے بہت سنگین نتائج مستقبل قریب میں خدا نخواستہ ہمیں بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔یہ ایک ایسا قدم ہے جس کی وجہ سے شوہر بیوی کا، بیوی شوہر کی، بچے ماں باپ کے دشمن ہو جائیں گے کہ یہ مریں تو ہمارے وارے نیارے ہو جائیں۔
حکومت پنجاب ایسی پالیسیاں کیسے بنا سکتی ہے آخر جس کی وجہ سے کسی کی جان ہی خطرات میں گِھر جائے؟اس سے زیادہ بدترین پالیسی سرکاری ملازمین کے حوالے سے اج تک نظر نہیں ائی
وہ سرکاری ملازم جو ساری عمر ملازمت کرتا رہتا ہے یہ اسی کا حق ہے کہ اسے اس کی زندگی میں ہی وہ سب کچھ دے دیا جائے جس کا وہ حقدار ہے نا کہ اس کی محنت اور خدمات کے صلے میں اس کی اولاد یا لواحقین کی جھولی بھر دی جائے جن کا اس کی محنت میں کچھ بھی حصہ نہیں ہوتا۔
جیتے جی تو آپ اسے رتی برابر کوئی بھی سہولت دینے کو تیار نہیں اور اس کے مرنے بعد اس کے لواحقین کو بنا کسی محنت اور مشقت کے لاکھوں کروڑوں کا مالک بنا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارے پالیسی میکرز کو کیا ہو گیا ہے ؟
سرکاری ملازم جو پہلے ہی معاشی تنگی کا شکار رہتا ہے محدود تنخواہ میں ایک گھر تک بنا سکنے کی سکت نہیں ہوتی اس میں اکثر سرکاری ملازمین کرائے کے مکانوں میں ہی ساری عمر گزار دینے پہ مجبور ہوتے ہیں۔ اپنی محدود آمدن میں گھر کے خرچے چلانا ،بجلی اور گیس کے بھاری بھرکم بلوں کی ادائیگی پٹرول کے آئے روز بڑھتے نرخ سے نمٹنا اور اس سب کے ساتھ بچوں کے تعلیمی اخراجات نے پہلے ہی ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے گھر والے بھی اس معاشی تنگی کے باعث ان سے اکثر نالاں رہتے ہیں وہ بیچارہ ساری عمر سسک سسک کر زندگی گزارتا ہے اور اب اس نوٹیفکیشن نے اس کی رہی سہی زندگی کو بھی خطرات سے دوچار کر دیا۔
سرکاری ملازمین کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کی یہ ایک بہت ہی گھناونی سازش ہے جس کی ہر سطح پر اور ہر طرف سے مذمت کی جانی چاہئے۔