غیر منقوط(بغیر نقطوں والے حروف یا عبارت)وہ کتاب ہوتی ہے جس کے تمام حروف میں کوئی نقطے والا حرف نہ آئے۔
ادبی صنعتوں میں سے ایک صنعت ” غیر منقوط تحریر“ ہے۔ اس قسم کی تحریروں میں صرف وہ حروف استعمال کیے جاتے ہیں جن پر نقطہ نہیں ہوتا، نقطے والے حروف سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ یہ بڑی مشکل اور سنگلاخ صنعت ہے اور اس میں بہت کم ادبا پوری طرح کامیاب ہو سکے ہیں ۔
اردو زبان میں کل 36 حروف ہیں جن میں سے 18 حروف ایسے ہیں جن میں نقطہ نہیں آتا۔ یعنی تقریباً آدھی اردو زبان غیر منقوط ہے۔ بہت مشکل ہوتا ہے ایک فقرہ میں ایسے الفاظ کا استعمال کرنا جن میں نقطہ نہ آتا ہو اور فقرہ کا مفہوم بھی سلامت رہے۔ صرف ایک سطر ہی لکھنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ بندہ غور کرے تو ایک لفظ کا غیر منقوط متبادل کئی کئی ہفتے نہیں ملتا،کثیرالسانی ڈکشنری سے استفادہ بھی کچھ کام نہیں آتا۔
تفسیر سواطع الالہام آٹھویں صدی ہجری کے ہندوستانی بادشاہ جلال الدین اکبر کی سلطنت اکبریہ کے علما اور نورتنوں میں شامل ،ابو الفضل فیضی نے قرآن کریم کی غیر منقوط تفسیر لکھی ۔
منظوم تراجم قرآنی کی روایت تو اردو ادب میں موجود ہے لیکن یہ زیادہ مشکل اور منفرد کام ہے۔اردو ادب میں یہ فن اور بھی سنگلاخ ہوجاتا ہے۔
منفرد لوگ ہی منفرد کام سرانجام دیتے ہیں۔
ایسے ہی ایک منفرد کام کرنے والی منفرد شخصیت میرے استاذ و مربی محترم ڈاکٹر محمد طاہر مصطفٰی ڈائریکٹر سیرت چیئر یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور نے شبانہ روز محنت سے یہ معرکہ سر کیا ۔اور قرآن مجید کا پہلا غیر منقوط اردو ترجمہ بعنوان "درس کلام اللہ” تحریر کیا ہے۔ یقیناً آپ دنیائے اسلام کے وہ پہلے سعادت مند انسان ہیں جس کو خالق کائنات نے اپنی ابدی کتاب قرآن مجید کا اردو زبان میں غیر منقوط ترجمہ کرنے کی سعادت سے نوازا ہے۔۔ غیر منقوط ترجمہ سے مراد یہ ہے کہ پورے ترجمہ قرآن میں کوئی بھی نقطہ والا حرف استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا کسی بھی زبان میں قرآن پاک کا پہلا ترجمہ ہے۔ یہ بھی قرآن پاک کے عجائبات میں سے ہے اور قرآن پاک کا ایک معجزہ ہے۔
اس ترجمے کا آغاز 14مئی 2011ء کو ہوا،اور دوسال سولہ دنوں کی قلیل مدت میں 30 مئی 2013ء کو قرآن مجید کے 30 پاروں کا اردو زبان میں پہلا غیرمنقوط ترجمہ مکمل ہوا۔1421صفحات پر مشتمل اس تفسیری غیرمنقوط ترجمہ میں 98فیصد الفاظ اردو کے اور صرف دو فیصد دوسری زبانوں کے استعمال ہوئے ہیں۔جس کا کوئی نعم البدل اردو زبان میں مترجم کو نہ مل سکا۔نقطہ دار الفاظ کا اردو نعم البدل نہ ملنے کی وجہ سے بعض جگہ صوتی رعایت بھی برتی گئی ہے جیسے "رات” کے لیے "لےل کی گھڑی ” اور "دیکھو ” کو بھی صوتی اعتبار سے "دے کھو” لکھا گیا ہے۔ آنکھ کو بغیر ن کے نقطہ کے "آںکھ "لکھا گیا ہے
یہ تفسیری ترجمہ جدت فن اور ادبی حوالے سے ایک اہم نادر اور تاریخی شہ پارہ ہے۔تاریخ کے اوراق میں مترجم کانام ہمیشہ امتیازی حیثیت سے اسی نسبت کے حوالے سے سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ اس غیرمنقوط ترجمہ پر اب مختلف زاویوں اور متعدد حوالوں سے محقیقین تحقیق کریں گے مقالات لکھیں گے۔مترجم اپنے حصہ کا کام انجام دے چکے ہیں۔اور زبان حال سے یہ فرمارہے ہیں۔۔؎
سپردم بہ تو مایہ خویش را
تو دانی حساب کم وبیش را
میں نے تو اپنا سارا سرمایہ تمہارے حوالے کر دیا اب تم جانو اور تمہارا کام۔
ڈاکٹر طاہر مصطفیٰ صاحب عجب مزاج کے غضب انسان ہیں؛ یاروں کے یار، زندہ دل، بذلہ سنج، نہایت حساس، تعاون کوش، دیرینہ تعلق کے پاسدار، ندرت پسند اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ وسیع حلقۂ احباب کے حامل۔
اور بطور شاگرد ایک بہترین استاذ پایا,او بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ آپ کی محبت اور شفقت سب کے لیے بے پایاں تھی ۔
کالم کے آخر میں تسمیہ اور سورہ اخلاص کے ترجمہ کا ایک جھلک دیکھئیے اور مترجم کی محنت اور کمال فن کی داد دیجئیے۔
(تسمیہ)اللہ کے اسم سے کہ رحم والا ہے اور لا محدود رحم والا ہے۔
(الاخلاص) "کہہ دو کہ اللہ احد ہے، اللہ ارحام کے سارے واسطوں سے ماورا ہے،سوال ہی معدوم کہ اللہ کسی کی اولاد ہو کہ کوئی اس کی اولاد،سوال ہی معدوم کہ کوئی اس کا ہمسر ہو”۔
ڈاکٹر صاحب دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ ساتھ یقیناً داد و تحسین کے حقدار ہیں ۔ اللہ پاک ڈاکٹر صاحب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور آپ کو دنیا و آخرت کی فلاح نصیب فرمائے۔