علماء و مبلغین کا کاروبار کرنا کس حد تک ضروری ؟
کچھ دن قبل موبائل خراب ہوا تو ٹھیک کروانے کے لیے گیا۔ خرابی کی نوعیت ایسی تھی کہ تین ہزار لگے ۔ پاس ہی ایک صاحب کرسی پر بیٹھے تھے کہنے لگے
مولوی صاحب !
"چنگا کیتا جلدی ٹھیک کروالیا ہلے تک عید والے پیسے ہون گے بعد وچ پتہ نہیں کدوں ٹھیک ہونا سی”
کاریگر مجھے جانتا تھا مسکرا کر جواب دیا کہ
جناب "اے عید آلے مولوی نئیں
سدا بہار مولوی نیں”
ان صاحب کی بات سے اندازہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں ایک عالم، مبلغ، امام صاحب، کے بارے یہی نظریہ ہے کہ یہ مفلوک الحال فقر و فاقہ کی زندگی بسر کرنے والے لوگ ہیں ۔ہماری سوسائٹی میں ایک بزنس مین سرمایہ دار پیسے والے کی بات کو جو اپروچ ملتی ہے وہ دوسرے کو نہیں ملتی ۔جس کے پاس پیسہ نہیں ہے یا کوئی بڑا عہدہ نہیں اس کی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہ ہماری قوم کی عادت بن چکی ہے ورنہ نہ پیسے والے نے کچھ دینا ہوتا اور نہ دوسرے نے کچھ لینا ہوتا ہے ۔
علماء و مبلغین کو بھی دین کا کام کرنے کے لیے سوسائٹی کی سوچ کے مطابق میدان عمل میں آنا ہو گا تاکہ موثر طریقے سے بے لوث دین متین کی خدمت سر انجام دی جا سکے۔ کسی بھی کمپنی کے نمائیندے کو دیکھیں۔ اس کا لباس چال ڈھال ، گفتگو ، اٹھنے بیٹھنے کے آداب یہ سب کمپنی کی نمائیندگی کرتے ہیں۔
اسی لیے مختلف کمپنیاں پبلک ریلیش کے عہدہ داروں کو اچھی گاڑیاں دیتے ہیں۔ انسانی فطرت ہے۔ وہ دوسروں کی دولت اور سٹیٹس سے جلدی مرعوب ہو جاتا ہے۔ تو کیا دین کے نمائیندہ کو مفلوک الحال ہونا چاہیے تاکہ لوگ اسے مفلس جان کر یہ سوچیں کے یہ دین کی بات کر کے پیسے مانگے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کہ پہچان ان کے لباس سے ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا! کاد الفقر ان یکون کفرا
کبھی کبھی فقر و غربت کفر کی شکل اختیار کر لیتی ہے
ایک دانشور لکھتا ہے
The want of tha money is tha root of all evils
مفلسی تمام برائیوں کی جڑ ہے
یہ تو صرف اپنی ذات کی حد تک تھا کہ مبلغ، عالم، امام معاشی استحکام حاصل کر کے فارغ البالی کے ساتھ بے لوث خدمت کرے تو بات میں وزن پیدا ہوتا اور معاشرتی زندگی میں دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے اپروچ ملتی جیسے ملنے کا حق ہے۔
اگر بات چندے کی کریں تو امراء سے چندہ لیتے وقت جو مسائل درپیش ہوتے ہیں معاشرتی نقطہ نگاہ کے علاوہ اگر شرعی حیثیت سے بھی دیکھیں تو بہت ساری چیزوں میں احتیاط کی ضرورت ہوتی یہاں پر مشہور تابعی و محدث امام سفیان ثوری علیہ الرحمہ کا قول سنیں اور دیگر بہت سارے پہلو خود بخود آپکے سامنے آ جائیں گے۔
آپ فرماتے ہیں:
لو لا المال لدینا لتمندل بنا الامراء
اگر ہم علماء اور اصحابِ دین کے پاس مال نہ ہوا تو امراء ہمیں اپنے ہاتھوں کا رومال بنا لیں گے۔
اور پھر ایک بہت بڑا ڈر ہمارے اندر پایا جاتا کہ اگر ہم معاشی استحکام کے لیے تجارت یا دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں تو یہ دنیا داری میں شامل ہو گا تو ہمارے دین پڑھنے کا کیا فائدہ ؟ اس سے دینی خدمات کا مزاج متاثر ہو گا ؟ ایسا سوچنا اور کہنا تاریخ کی ان ہزاروں عظیم ترین اور مقدس شخصیات پر صریح ظلم ہو گا جہنوں نے قرآن کریم کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے کہ
وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا
اور دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول
دنیا سے بھی اپنا وافر حصہ وصول کیا اور دین کے تعلق سے علم و دعوت کے مختلف میدانوں میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔
تجارت اور دیگر ذرائع آمدن کو دنیا میں ملوث سمجھنے والوں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ تجارت امام الانبیاء ﷺ کی سنت ہے اس سے سیر و سیاحت کے مواقع بھی ملتے ہیں جسے حدیث میں جہاد سے تعبیر کیا گیا کیوں کہ اس کے ذریعے زمانے کے احوال اور لوگوں کے مزاج و معاملات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا اور یہ چیز دعوت و تبلیغ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اس لیے یہ کوئی بری چیز نہیں ہے کہ جو دین دار طبقے کے لیے ناجائز ہو اور انکی شان شایان نہ ہو بلکہ مشہور محدث امام سفیان ثوری علیہ الرحمہ کا یہ فرمان سنیں
آپ فرماتے ہیں:
کان المال فیما مرضی یکرہ فاما الیوم فھو ترس
ماضی میں مال کو ناپسند کیا جاتا تھا آج وہ مومن کی ڈھال ہے۔
یہ کئی صدیاں پہلے کی بات ہے جب کہ اس وقت مسلمانوں کو اس ڈھال کی سخت ضرورت ہے۔ ۔لہذا تجارت دعوت و تبلیغ میں معاون ثابت ہوں گے نہ کہ نقصان دہ۔