صحافت کے شعبے میں میرا مشاہدہ ہے کہ کرائم رپورٹروں کا شعر و ادب وغیرہ سے کم ہی تعلق ہوتا ہے. بس کراچی میں عارف شفیق تھے اور لاہور میں بابا چشتی. جنہوں نے مشق سخن اور چکی کی مشقت ساتھ ساتھ جاری رکھی.
بابا چشتی کے کتنے ہی نام تھے… عطا اللہ پنجابی، پرویز چشتی، شاعر مساوات…
میں امروز میں تھا تو وہاں انہیں دیکھا، رپورٹنگ سیکشن میں بدرالاسلام بٹ، رضاحمید، تنویر زیدی اور دوسرے دوستوں سے ملنے آتے تھے. منو بھائی اور شفقت تنویر مرزا سے بھی ملتے. ہمیشہ سفید شلوار قمیص اور سیاہ چشمے کے ساتھہ دیکھا. بے شمار سیاسی قطعات، اردو پنجابی اردو غزلیں لکھیں. کئی سال ان کی اولاد کو یاد دلاتا رہا کہ ان کا کلام جمع کرکے چھاپ ڈالیں. بالآخر چند ماہ پہلے یہ یہ کام بھی ہوگیا.
عطا اللہ پرویز چشتی 1932 میں پیدا ہوئے۔ نوائے وقت ، کوہستان اور مساوات سے وابستہ رہے۔ اس سے پہلے فلمی دنیا میں جگہ بنانے کی کوشش کی لیکن پھر وہ خیال چھوڑ کر صحافت میں آگئے۔
انہوں نے 1959 میں فلم ’’ساتھی ‘‘ کیلئے دو گیت لکھے۔۔۔ دل والے دل والے پی کر رنگ جمالے آ۔۔۔۔ ناہید نیازی نے گایا۔ دھیرے دھیرے بہے جائے رے، نیا جھکولے کھائے رے۔۔۔۔ ناہید نیازی اور منیرحسین نے گایا۔
1961 میں فلم ’’ منگول ‘‘ میں ان کا گانا ، یہ دل ہے میرا او بھولے پیا، ملکہ ترنم نورجہاں نے گایا۔
1963 میں فلم’’ ماں بیٹی‘‘ میں پرویز چشتی کا گانا ، یہ زندگی ہے کیا جو تم سے ہو جدا، مالا نے گایا.
ستمبر 1982 میں وفات سے ایک آدھ دن پہلے عطااللہ پنجابی/ پرویز چشتی نے منو بھائی کو ایک خط لکھا جو منو بھائی کو ان کے انتقال کے بعد ملا ۔ خط میں حالاتِ حاضرہ پر گپ شپ کے ساتھ اپنی ایک غزل بھی بھیجی جو منو بھائی نے اپنے 24 ستمبر1982 کو شائع ہونے والے کالم میں شامل کی. یہ شاید ان کی آخری غزل ہو۔ وہ 17 ستمبر کو وفات پاچکے تھے۔
آج ان کی برسی ہے
ہر نیا سانس خطا ہو جیسے
زندگی کوئی سزا ہو جیسے
میری نس نس میں رچا ہو جیسے
جسم خوشبو میں بسا ہو جیسے
بند کھڑکی ہہ بھی احساس رہا
وہ مجھے دیکھ رہا ہو جیسے
یاد ہے اس سے بچھڑنے کا سماں
جسم سے روح جدا ہو جیسے
بن ترے لگتا ہے دل کے اندر
میرا کچھ ٹوٹ گیا ہو جیسے
ہے تو انساں ہی پہ تیور دیکھو
یوں اکڑتا ہے خدا ہو جیسے
قتل کے بعد سکوں چہرے کا
دست قاتل ہی شفا ہو جیسے
وہ خیالوں میں ہے یوں محو خرام
صحن گلشن میں صبا ہو جیسے
توڑنا عہد گنہ تھا لیکن
تیرے مسلک میں روا ہو جیسے
بھٹو کی شہادت پر بابا پرویز چشتی کی دو غزلوں کے کچھ شعر:
پیشِ نگاہ آج بھی صورت اسی کی ہے
افتادگانِ خاک کو چاہت اسی کی ہے
گو تم بہ جبر جسموں کو زنجیر کر چکے
لیکن ہر ایک دل پہ حکومت اسی کی ہے
ہر ایک نشیبِ شہر میں آباد اس کی یاد
ہر بے چراغ گھر میں سکونت اسی کی ہے
وہ بن چکا ہے آج زمانے کا نظریہ
ہر بوریا نشین کو ضرورت اسی کی ہے
جیسے صلیب شاخ پہ ہو گل کھلا ہوا
خنداں فرازِ دار پہ صورت اسی کی ہے
مرکر بھی جس کی قبر پہ پہرہ لگا رہا
ہیبت اسی کی دل پہ جلالت اسی کی ہے
۔۔۔۔
اب کے برس تو ساون برسا نینن میں
اگلی رُت جانے کیا لائے دامن میں
ہم کو یقین ہے پھول اور پھل بھی لائے گا
اس کی یاد کا پیڑ لگا ہر آنگن میں
جس کے باعث قد اس کا کچھہ اور بڑھا
وہ پھندا محسوس ہوا ہر گردن میں
ناصر بیگ چغتائی بتاتے ہیں، بابا چشتی سے ایک خاص تعلق رہا ۔ جب بھی مساوات کراچی آتے بڑے مزے رہتے اور ہم اکثر پوچھا کرتے یہ شاعری اور کرائم کا ساتھ کیسے ہو گیا ۔۔۔۔ دو تین شعراء کے نام لے کر کہتے ۔۔۔۔ یہ بھی تو جرائم کرتے ہیں۔
رضا حمید نے بتایا امروز کے زمانے میں ، میں نے بھی کچھ عرصہ کرائم رپورٹنگ کی جس کی وجہ سے بابا جی سے گہری دوستی ہو گئی ۔وہ اکثر مجھے اپنے شعر سناتے تھے۔ بہت کم لوگوں کو ان کے شاعر ہونے کا علم تھا ۔ضیا الحق مردود کے عہد پر لکھی گئی ان کی نظم کے کچھ شعر مجھے آج بھی یاد ہیں:
ہر ایک مرض ہر اک درد کی دوا کوڑے
طبیب شہر کا ہے نسخہ شفا کوڑے
سوال کرتے ہیں آٹے کے بڑھ گئے بھاؤ
جواب ملتا ہے آٹا نہیں تو کھا کوڑے
گلاب بھی ہے لہو رنگ تو یہی سمجھو
تمام رات لگاتی رہی صبا کوڑے
جو ٹکٹکی سے بندھا ھے برھنہ تن احساس
تو بن گئی تیرے شہر کی ہوا کوڑے