fbpx
بلاگبلاگ / کالمز

طبیب چاہیے درد دل بھی / بشری نواز

دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان وہ ہے ، جسے صحت اور فراغت دونوں حاصل ہیں۔(حدیث نبویؐ )
صحت اللہ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے اور اس نعمت کا جتنا بھی شکر ادا کیاجائے کم ہے بلاشبہ صحت کا کوئی نعم البدل نہیں  قوموں کی ترقی صحتمند عوام سے ہی ہے . سرمائے کا تعین کرنے میں صحت کا ایک اہم رول ہے صحت مند قوم نا صرف کارگردگی اور افرادی قوت کو بہتر بناتی ہے بلکہ ملک کی ترقی میں بھی بہتر کردار ادا کرتی ہے
صحت مند شہری کسی بھی ملک کا عظیم اثاثہ ہوتے ہیں اسی اثاثے کو محفوظ رکھنے کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک اپنے G.D.P کازیادہ تر حصہ اپنی عوام پر خرچ کرتے ہیں پاکستان میں جو پیسہ صحت کے شعبے پر خرچ ہوتا ہے وہ آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ اور اسی وجہ سے ملک میں صحت کے حوالے سے بے شمار مسائل کا سامنا ہے ۔ دنیا کے ہر ملک میں صحت کے ہر شعبے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے ۔ بہترین ڈاکٹر ‘ مفت یا سستی دوا فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے جہاں صحت کا شعبہ گورنمنٹ کی لاپروائی کی بھینٹ چڑھ رہا ہے اور اس شعبے کی لاپروائی کی ایک بڑی وجہ آئے دن ڈاکٹروں کی ہڑتال ہے ۔ وہ صرف اپنے مطالبات کے حق میں  مظاہرے اور ہڑتالیں کرتے ہیں۔ ہر نئی آنے والی حکومت صحت کے شعبے کے حوالے سے بہت بلند دعوے تو ضرور کرتی ہے مگر عمل نہیں کر پاتی ۔کچھ عرصہ پہلے صحت کا شعبہ صوبوں کے ماتحت کر دیا گیا  تا کہ عوام کو صحت کی سہولیات ْآسانی سے فراہم کی جا سکیں مگر کچھ بھی تبدیل نہیں ہو سکا ۔

سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کا برا حال رہتا ہے ۔ تمام سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر ز شام کو اپنے پرائیویٹ کلینک چلاتے ہیں جو ہسپتال آنے والے کتنے ہی مریضوں کو اپنے کلینک کا پتا دیتے ہیں ۔ کئی ڈاکٹروں نے مریضوں کو لوٹنے کا نیا طریقہ اختیار کیا ہے وہ ایسا ہے کہ پہلے مریض ایڈوانس پرچی لے جو سو روپے کی ہے پھر اگرکوئی ایمر جنسی ہے تو پانچ سو کی پرچی لیں اور حالت زیادہ خراب ہے تو ایک ہزار کی پرچی لیں اور پھر ایسے ہی سو روپے والے کی باری آتی ہے۔ زیادہ تر ڈاکٹر ایسا ہی کر رہے ہیں جس ملک میں مسیحا ہی قاتل بن جاۓ وہاں صحت کے مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی یہ حالت ہے کہ لیبارٹری میں مشینری موجود نہیں اگر ہے بھی تو ناقابل استعمال ، لیبارٹری کی رپورٹس ناقابل اعتبار ہوتی ہیں ۔ اکثر ڈاکٹر ڈیوٹی پر نہیں ہوتے ۔ بے پناہ رش کی وجہ سے کتنے ہی مریضوں کی باری نہیں آپاتی ، مریضوں کے لحاظ سے ڈاکٹر بہت کم ہیں ۔ اگر کسی کو آپریشن کروانا ہو تو مریض کو سات آٹھ مہینے کے بعد کی تاریخ ملتی ہے اس دوران مریض چاہے مر جائے ہسپتال والوں کی بلا سے ۔ ان سرکاری ہسپتالوں میں بیڈز کی شدید کمی ہے ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض زیر علاج ہوتے ہیں۔ کچھ راہداریوں میں بے یارومددگار پڑے نظر آتے ہیں جو وارڈز ہیں  انکی صفائی کا بھی خاص خیال نہیں رکھا جاتا۔
بلیاں ،چوہے اور لال بیگ وارڈز  میں دوڑتے بھاگتے نظر آتے ہیں اور باتھ رومز کا تو حال ہی نا قابل  بیا ن  ہے۔  سٹاف کی کمی کی وجہ سے ایک نرس دو دو وارڈز سنبھال رہی ہوتی ہے او ر اسی وجہ سے اکٹر نرسز چڑچڑے پن کا شکار ہوئی نظر آتی ہیں  ۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر شعبوں کی طرح صحت کا شعبہ بھی کمرشلائیز ہو رہا ہے جس کے وجہ سے پرائیوٹ ہسپتال ، کلینکس اور لیبارٹریاں وجود میں آ رہی ہیں ۔ یہ ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔حکومت  کو چاہیے کہ صحت کے شعبے پر توجہ دے تاکہ عوام کو طبعی سہولیات فراہم کی جائیں۔مزید میڈیکل کالج کھولے جائیں تاکہ ملک میں ڈاکٹروں کی کمی پوری ہو سکے  ۔ کچھ طالب علم  ڈاکٹر بنتے ہی بیرون ملک کو روانہ ہو جاتے ہیں اور کچھ سرکاری ہسپتالوں میں بیٹھنے والے ڈاکٹر شام کو اپنے پرائیوٹ کلینیک چلاتے ہیں جہاں وہ مریضوں سے لاکھوں روپیہ لوٹتے ہیں۔  اس کےباوجود وہ آئے روز سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں ۔ ان ڈاکٹروں نے اپنے ہر جائز ناجائز مطالبات کا حل صرف احتجاج میں ڈھونڈ لیا ہے جس دن یہ ہڑتال کرتے ہیں اس دن کتنے ہی مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔  کاش اس شعبے میں درد مند انسان آجائیں اور یہ شعبہ ایک مثالی شعبہ بن جائے ۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے