شیہان کرونا تیلاک کے ناول
The seven moons of maali almeida کو بوکر پرائز دیے جانے کااعلان کیا گیاہے۔اس اعلان سے سری لنکاادبی حلقے میں گفتگوکامرکز بن گیا۔چند ہفتے قبل سری لنکاسے جو خبریں اورتصویریں نکل کر باہر آرہی تھیں وہ دنیا کے لیے حیرانی اور پریشانی کاباعث تھیں۔ ایک ملک کی سیاسی اور اقتصادی صورت حال دنیا کو خوفزدہ کررہی تھی۔لوگ مظاہرے کررہے تھے۔وہ محل جہاں عام لوگوں کو کبھی جانے کی اجازت نہیں مل سکتی تھی،وہاں انہیں چلتے پھرتے، ہنستے ہنساتے دیکھناوقت کی گردش
ان تصویروں کو دیکھ کر طاقت اور حکومت کے زوال کی کہانی سامنے آگئی۔
یہ سب کچھ ابھی ذہن میں تازہ ہے۔پھر بھی حالات پوری طرح معمول پر نہیں آئے ہیں۔اسی درمیان سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کرکٹ میچ کھیل رہی ہے۔اس نے ایشیا کپ جیت کر یہ ثابت کردیاکہ ملک کے حالات جیسے بھی ہوں ملک کے لیے کھیل کے میدان میں جی جان لگادیناانہیں آتاہے۔یہ محض اتفاق نہیں کہ سری لنکاکو ایک ملک کی حیثیت سے مجھ جیسے بہت لوگوں نے کرکٹ کھلاڑیوں کے وسیلے سے جانا۔یعنی سری لنکا وہاں واقع ہے جہاں مرلی دھرن،روشن مہانامہ،سنت جے سوریا،آسوتوش راناتنگااور مہیلاجے وردھنے رہتے ہیں۔
یہ بھی محض اتفاق نہیں کہ شیہان کرونا تیلاک کاپہلاناول چائنا مین میں سری لنکاکو کرکٹ کے وسیلے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ ایک ایسے صحافی کی کہانی ہے جو شراب پیتاہے۔اسی لیے اسے ایک شرابی کی کہانی بھی کہا جاتاہے۔یہ 1980کی دہائی کے گمشدہ کرکیٹر کی تلاش سے متعلق ہے۔اس کہانی کو جس طرح بیان کیا گیاہے،اس میں یادداشت کابہت اہم کردار ہے۔اس میں المیہ عناصر بھی ہیں اور پر اسراریت بھی۔
1999میں سری لنکا جب کرکٹ کاولڈ چیمپین بناتو اس سے ملک کی تہذیبی زندگی کاچہراروشن بھی ہوا اور تابناک بھی۔اس کہانی کا راوی ڈبلیو جی کروناسیناہے،وہ ایک اسپورٹس جرنلسٹ ہے،جواپنے پیشے سے سبکدوش ہو چکاہے۔یہ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ 64سال میں اس جرنلسٹ نے شراب پینے اور سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کو دیکھنے کے علاوہ کچھ اورنہیں کیا۔
جب ڈاکٹروں کو اس کے قلب کے عارضے کے بارے میں بتایاگیاتو ڈبلیو جی نے فیصلہ کیا کہ اس نے ابھی تک ایک سب سے بڑی چیز کاسراغ لگالیاہے۔پردیپ میتھیو 80 کی دہائی میں سری لنکا کے لیے کرکٹ کھیلتے تھے اور وہ بائیں ہاتھ کے اسپینر تھے۔اس ناول کو بہت شہرت ملی اور کئی اعزازات سے نوازہ گیا۔2012میں چائنا مین کو ایشیاکامن ویلتھ بک پرائز سے بھی نوازہ گیا۔
کسی اور موقع پر میں اس ناول کے بارے میں کچھ اور لکھوں گا۔اس وقت تو شیہان کرونا تیلاک کے دوسرے ناول جسے بوکرپرائز ملا ہے،اس کا ذکر مقصود ہے اور اس ضمن میں ناول نگار کی زندگی کے تعلق سے میں چند حقائق بھی پیش نظر ہیں۔
شیہان کرونا تیلاک1975میں جنوبی سری لنکا کے ایک مقام گالے میں پید ا ہوئے۔کولمبو میں ان کی پروش ہوئی۔
نیوزیلینڈ میں تعلیم حاصل کی۔انہوں نے تعلیم ایس تھامس پری پیرٹری اسکول کولو پیٹیاسری لنکا وانگانوئی کالیجٹ اسکول اور سی یونیورسٹی پامسٹرن نارتھ میں حاصل کی۔ایمسٹرڈم اور سنگاپور میں بھی وہ بعض کاموں کے سلسلے میں مقیم رہے۔پہلے ناول کی اشاعت سے قبل آئرس اور بی بی ڈی او میں اشتہارات کے تعلق سے مصروف کاررہے۔دی گارڈین نیوز ویک رولنگ اسٹون جی کیو،نیشنل جوگرافک،وژڈن،دی کرکیٹر اور دی اکنامک ٹائمس کے لیے فیچر بھی تخلیق کیے۔
شیہان کرونا تیلاک کا پہلا مخطوطہ دی پینٹر کو 2000میں گریٹین پرائز کے لیے منتخب کیاگیا مگر یہ کبھی شائع نہیں ہوا۔
The seven moons of maali almeida کو بوکر پرائز ملنے کے بعد جو رد عمل سامنے آیا،اس میں دوباتوں کی بڑی اہمیت ہے۔ایک تویہ کہ اس ناول کاتعلق بھی یادداشت سے ہے۔خود ناول نگار نے اپنے پہلے انٹرویو میں ناول کے اسلوب اور ناول کے موضوع کے بارے میں اہم اشارے کیے ہیں۔یادداشت کس طرح کسی اچھے فکشن کے وجود میں آنے کاسبب بن جاتی ہے،اس کاایک نمونہ یہ کتاب بھی ہے۔
دنیا کے چند بڑے ناولوں کاتعلق یاد داشت سے ہے،ان کارشتہ انسانی زندگی کی پامالی او ر بے حرمتی سے ہے۔ہندوستان ٹائمز نے جو سوالات ناول نگار سے کیے،اس میں اس کی سرخی کچھ اس طرح لگائی گئی کہ The question for srilankans writers is should we dig up our past or bury it?سری لنکائی ادیبوں کے لیے جو سوال قائم کیا گیاہے،اس کے پیچے سری لنکا کی سیاسی تاریخ پوشیدہ ہے۔سیاسی تاریخ کا ایک بڑارشتہ خانہ جنگی اور انتہاپسندی سے ہے۔اس کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں لیکن ان کاتجزیہ کرتے ہوئے غیر جانبدار ہونے کی بہت ضرورت ہے۔
ماضی کو تلاش کرنا یانکالناہمیشہ مسرت کا وسیلہ نہیں ہوتا۔اس کے پیچھے ایک نہ ختم ہونے والی افسردگی ہوتی ہے، جو سائے کی طرح انسانی وجود کاپیچھا کرتی رہتی ہے۔فضا کاتبسم بہارہونا بھی کتناحوصلہ دیتاہے۔مگر یہ فضا ایک ایسے احساس سے دوچار کردیتی ہے جس کاذکر فراق کے اس شعر میں موجود ہے۔
فضا تبسم صبح بہار تھی لیکن
پہنچ کے منزل جاناں پہ آنکھ بھر آئی
شیہان کرونا تیلاک کے لیے بوکر پرائز لینے کالمحہ فضاتبسم صبح بہار کی طرح تھا یانہیں۔ آنکھ کے بھر آنے کاسراغ کون لگائے گااور اس کی گواہی کون دے سکتاہے۔
سری لنکا کی موجودہ صورت حال کو دیکھ کر وہاں کے ایک ناول نگار کی عزت افزائی کے سیاق میں فراق کاشعر بغیر کسی شعوری کوشش کے یادآگیا۔
2015میں اس ناول کا جو مسودہ تیار کیاگیااس کے مختلف عنوانات تھے۔گریٹیئن پرائز کے لیے جب یہ شارٹ لسٹ کیا گیاتواس کانام شیطانی ڈانس تھا۔پنگوئن نے چیٹس وتھ دی ڈیڈ کے نام سے اسے 2020میں بر صغیر ہند وپاک کے لیے شائع کیا۔ناول نگار کو کسی ایسے بین الاقوامی پبلیشر کی تلاش تھی جو اسے بین الاقوامی سطح پر شہرت دلاسکے۔ایک سوال کے جواب میں شیہان کرونا تیلاک نے بتایاہے کہ انہوں نے کس طرح اور کیوں کر ناول کاایک ورژن تیار کیا۔اس مسئلے پر غور کرتے ہوئے ہمیں فن کار کی اس آرزو کا احترام کرنا پڑتاہے کہ اس کی تخلیق کو باشعور دنیا کی نظرسے اوجھل نہیں ہونا چاہیے۔
ایک شائع شدہ ناول کو دوبارہ دیکھنااور نئے سرے سے اس کامتن تیار کرنا اور پھر اسے بوکر پرائز مل جاناایک واقعہ ہے۔شیہان کرونا تیلاک سے جو سوالات کیے گئے اور انہوں نے جو جوابات دیے،ان کے چند اقتباسات ترجمے کی صورت میں پیش کیے جارہے ہیں۔
”جب چیٹس وتھ دی ڈیڈ شائع ہوئی تو ہندوستان اس کے بارے میں کافی پرجوش تھا۔ بہت ساری پیشکشیں تھیں اور زیادہ تر پبلیشر ز بڑی ادارتی مداخلت کی ضرورت کے بغیر اسے شائع کرنا چاہتے تھے۔لیکن افسوس ہے کہ ناول ہر جگہ نبردآزماتھا۔یہ میرے لیے بہت پریشان کن تھا۔کسی کتاب پر اتناطویل عرصہ (تقریبا دس سال)گزارنے کے بعد اس طرح کے رد عمل کو دیکھنا بہت مایوس کن ہو سکتاہے۔یہاں تک کہ جن لوگوں کو میرا ناول چائنا مین پسند آیا وہ بھی اس کتاب سے کافی پریشان تھے۔“
اس اقتباس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اپنے پہلے ناول کی اشاعت ان کے لیے بہت تقویت کا باعث نہیں تھی۔باشعور قارئین کامل جاناوہ بھی بڑی تعداد میں اس کے لیے خارجی کوشش تخلیق کار کو مضحکہ خیز بنادیتی ہے۔لیکن خارجی کوشش کیاوہ بھی ہو سکتی ہے جسے ہم زمانے کی روش اور مزاج کو دیکھ کر بلکہ تقاضے کو دیکھ کر نئے سرے سے کسی متن کو تیار کرنا کہتے ہیں۔زمانے کا تقاضا کچھ بھی ہو سکتاہے اور اس کی پہچان بھی کئی طرح سے کی جاسکتی ہے۔مگر یہاں تو مرکز میں وہ خارج ہے جو شیہان کرونا تیلاک کے لیے اس کاباطن ہے۔
یعنی اس کا ملک اور اس کی سماجی،سیاسی اور تہذیبی زندگی۔دنیا کو اپنی ہی دنیا کے بارے میں بتانے کی خواہش کوئی دکھاوے کی تخلیقی سرگرمی ہرگز نہیں ہوسکتی۔وہ بھی ایک ایسی دنیا جو ہتھیاروں اور حملوں سے گھری ہوئی ہے اور اس گھراؤ کو توڑنے کی کوشش میں نہ جانے کتنی جانیں تلف ہوئیں۔میں نے ابتدا ء میں سر ی لنکا کو ان کے چند کرکٹرز کے وسیلے سے جاننے او ر پہچاننے کی بات کہی ہے۔
مگر سری لنکاکواس جنگ سے بھی ہم لوگوں نے جانا ہے جس کی مدت کم نہیں تھی۔اس کی طرف جاناایک نئے باب کااضافہ کرنا ہے۔یہ باب نہ بہت روشن ہے اور نہ ہی حوصلہ افزا۔شیہان کرونا تیلاک نے اس ناول کو لکھنے کے لیے چند برس پیچھے کی طرف جانے کا جو فیصلہ کیا تھا،اس کاسبب یہ نہیں تھا کہ وہ اس صورت حال کو فاصلے سے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔فاصلے سے دیکھنے کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ لکھنے والابہت حد تک غیر جذباتی ہو جاتاہے۔
ہم جسے فاصلہ کہتے ہیں وہ اکثراوقات قربت کا وسیلہ بن جاتاہے۔لیکن شیہان کرونا تیلاک نے پیچھے جانے کافیصلہ اس تخلیقی ضرورت کے ساتھ کیا تھا کہ حالات کو حقائق کے ساتھ دیکھا جائے اور ان کی تجرید کی کوشش حقائق کے ساتھ نہ انصافی ہوگی۔جب ان سے یہ سوا ل کیا گیا کہ آپ نے 2020کے ناول کو عالمی دنیا کے سامنے نظرثانی کے بعدپیش کیا،کیا کہانی میں بڑی تبدیلیاں ہوئی ہیں؟۔ان کایہ بھی جواب تھا۔
”میرے پاس قارئین کے نئے حلقے کے لیے اس پر کام کرنے کے لیے چند ماہ کاوقت تھا اس لیے میں نے کچھ کرداروں اور ذیلی پلاٹوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔اگر چہ یہ ایک ہی کہانی ہے۔سات چاندبڑی حد تک رسائی کے قابل ہے۔“
ان سے سوال کیا گیاکہ کیا ناول کے مرکزی کردار مالی المیڈاکے پاس اپنی موت کامعمہ حل کرنے کے لیے سات راتیں ہیں؟۔آپ کہانی تک کس طرح پہنچے؟۔
”ناول میں بہت سارے متحرک حصے ہیں لیکن بنیاد یہ تھی اگر سری لنکا کے مردہ بول سکتے ہیں تو کیا ہوگا،وہ کس قسم کی کہانی سنائیں گے اور وہ جنگ کے آخری مرحلے کے دوران سنامی اور ایسٹر کے حملوں سے ہلاک ہو چکے ہیں،میرے پاس مدت کے بارے میں اپنی پسند تھی۔لیکن 1989میں چلا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس دوران مجھے نو عمری کی زندگی گزارنی تھی۔ہم نے سری لنکا میں کافی قتل عام کیے ہیں۔جن میں 1971اور 1983کے قتل عام بھی شامل ہیں۔میں یہ جاننا چاہتاتھا کہ یہ کردار اس کے بعد کی زندگی میں کیا تھے۔ہر بھوت کسی نہ کسی حقیقی کردار پر مبنی ہوتاہے۔
جب میں ریکارڈس کو پڑھ رہاتھاتو مجھے بہت سے قتل کے واقعات نظرآئے اور اس طرح میں کہانی تک پہنچا۔۔۔۔بھوت ہمارے تمام تنازعات سے آتے ہیں جن کوختم کردیاگیاہے۔کرداروں کی قیمت کے طور پر بھوتوں کاخیال ہمارے ماضی سے نقشے کی حقیقت کا ایک واضح استعارہ تھا۔میں نے سوچا کہ مجھے ملک کے تاریک ابواب سے پردہ اٹھانے کے لیے کریدنا چاہیے۔“
شیہان کرونا تیلاک کی بھوتوں کے سلسلے میں جو بصیرت ہے اسے تخلیقی بصیرت کانام دینا چاہیے۔اس ضمن میں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا ہے کہ سرلنکا کاجوقومی کردارہے اس میں اپنے آپ پر ہنسنے کی جرأت اور طاقت ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ صدارتی بحران کے درمیان بھی لوگ لطیفے سنا رہے تھے،تاش کھیل رہے تھے،حکومت کامذاق اڑا رہے تھے۔اس حوالے سے ان کا یہ کہنا بھی بہت اہم ہے کہ
”اگر آپ تمام سنگین چیزوں کے بارے میں لکھتے ہیں تو یہ کافی افسردہ تبصرہ بن جاتاہے۔لہذاآپ سے تھوڑا سامزاح کے ساتھ غصہ کرتے ہیں۔میں محسوس کرتا ہوں کہ شاید یہی وہ انداز ہے جومیں نے تیار کیاہے۔“
اس ناول کا پس منظر تشدد ہے جوکبھی بھی کسی تخلیق کارکو داخلی سطح پر آسودہ نہیں کر سکتا۔ اور خصوصا وہ تشدد جس کاتعلق لکھنے والے کی اپنی سرزمین سے ہو۔تشدد میں مزاح کو پیدا کردینااکثر اوقات تحریر کو کمزور بھی کر دیتاہے۔مزاح سے فکری دبازت جب کمزور ہونے لگتی ہے تو قاری کو دیکھ ہوتاہے کہ غیر ضروری طورپر مزاح سے کام لیا گیاہے۔جن ججوں نے اس ناول کو انعام کامستحق قرار دیاان کی نظرمیں یہ ناول غصے میں مزاحیہ تھا۔غصہ کومزاح میں تبدیل کر دینا غیر معمولی تخلیقی صلاحیت کامتقاضی ہے۔
تلاک کایہ جملہ بہت متاثر کرتاہے کہ ”ہنسی واضح طور پر مقابلہ کرنے کاطریقہ کارہے۔“خانہ جنگی کے سیاق میں ایک جنگی فوٹوگرافر کی کہانی اس طرح ایک ملک کی مخصوص صورت حال کی ترجمان بن جاتی ہے۔ایک جنگی فوٹو گرافر کے سامنے جو چیلینجزہیں،انہیں یہاں دیکھا جاسکتاہے۔اسے اپنے ہی قتل کے الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے کاکام دیا گیاہے۔