لکھی جائیں گی کتاب دل کی تفسیریں بہت
ہاں صاحبو کتاب دل کی تفسیریں روز ازل سے لکھی جارہی ہیں۔اور لکھی جاتی رہیں گی۔نظم ونثر کی بےشمار اصناف دلی جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں۔اور لکھنے والے افسانہ، ناول ،شاعری کا مواد زندگی کے حقائق سے کشید کرتے ہیں۔میر کے بہتر نشتر ہوں۔یاغالب کی شاعری،وہ دلوں کو یوں بھاتی ہے۔کہ غم دوراں اور غم جاناں کی ترجمان ہے۔افسانہ وافسوں اور ناول کے ساتھ خودنوشت یا آپ بیتی پسند کی جاتی ہے ۔اور لوگ سرگزشت یا آپ بیتی زیادہ شوق سے پڑھتے ہیں۔بقول ایک نقاد کے
"خود نوشت ناول سے زیادہ دلچسپ ہے”۔
مگر نہ جانے کیوں خود نوشت لکھنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔
اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میری خود نوشت پر مشہور شاعر
ادیب کالم نگار سعود عثمانی نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ "اگر میرا خیال درست ہے۔تویہ خالص اوراعلی اقدار والے پشتون گھرانے سے تعلق رکھنے والی تعلیم یافتہ خاتون کی اعلی اردو میں پہلی خود نوشت ہے۔نصرت نسیم نے خوب صورت لب ولہجے اور اسلوب میں یہ خود نوشت ایسے خوبصورت لفظوں میں گوندھی ہے۔کہ ان پر اہل زبان ہونے کا گمان گزرتا ہے ”
کیا واقعی ایسا ہے۔؟یہ سوال 50 سال سے زیادہ ادب سے جڑے محترم ناصر علی سید صاحب سے پوچھا۔انہوں نے ذہن پر زور دیا۔ایک دونام لئے پھر خود ہی انہیں مسترد کر دیا۔مشرف مبشر نہیں وہ تو صرف فرانٹیر کالج کی کہانی ہے وغیرہ وغیرہ
گوگل نے کہا سلمی شاہین ہم نے ان سے پوچھا۔انہوں نے نفی میں جواب دیا۔
اب مارے تجسس کے جبار مرزا صاحب سے پوچھا کہ وہ نصف صدی سے زیادہ صحافتی اورادبی دنیا سے جڑے ہیں۔اور ان کی لائبریری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ان کا جواب بھی نفی میں تھا۔میں نے کہا۔سنا ہے کلثوم سیف اللہ کی خود نوشت ہے۔مگر 21سال پہلے چھپنے والی
کتاب اب دستیاب نہیں۔یہ سنتے ہی جھٹ وہ کلثوم سیف اللہ کی کتاب نکال لائے۔کہ یہ کتاب میرے دوست سحر انصاری نے لکھی ہے۔یہ دیکھیں سحر انصاری کا نام لکھا ہے اور انہوں نے ہی مجھےیہ کتاب دی تھی ۔کلثوم سیف اللہ نے خود کب لکھی ہے۔آپ اسے خود نوشت نہیں کہہ سکتے۔چلیں جی یہ سوال اب دل چسپ نوعیت اختیار کر گیا۔کہ پشاور اکیڈمی ادبیات کی شاندار تقریب میں 75 سالہ ادب پر تحقیقی کتب کی تقریب رونمائی کی گئ اور محققین نے اپنے خطاب میں 75سالہ ادب کا محققانہ جائزہ پیش کیا۔تمام اصناف ادب کا ذکر کیا گیا ۔سواے خود نوشت کے۔
اس سوال کا شافی جواب اب تک نہ مل سکا۔
شاید اپنی داستان زندگی کو لکھنا اتنا آسان نہیں۔پھر خواتین کے لئے سوا مشکل ہے۔
کہ اس میں دوچار بہت سخت مقام آتے ہیں۔
خواتین کی جو خود نوشت نظر سے گزریں۔ایک تو عصمت چغتائی کی "کاغذی ہے پیراہن "مگر اسے مکمل کرنے کی انہیں زندگی نے مہلت نہ دی۔سو ایک تشنگی رہتی ہے۔امرتا پریتم کی رسیدی ٹکٹ بھی خوب رہی۔اور سب سے بڑھ کر ہماری پسندیدہ مصنفہ قرۃ العین کی خود نوشت” کار جہاں دراز ہے "خاصے کی چیز ہے۔یہ ضخیم داستان حیات ہمیں اپنے ساتھ ہندوستان، پاکستان جگہ جگہ ساتھ لے گئ۔ایسی پراثر محاکاتی خود نوشت شاید ہی کوئی ہو۔
خواتین کی نسبت مردوں نے اپنی خود نوشت لکھیں۔مگر باقی اصناف کی نسبت کم کم۔اگر میں تمام آپ بیتی لکھنےوالوں کا ذکر کروں تو بات طویل ہوجائے گی
اس لئے اب صرف ان کاذکر کروں گی۔کہ جنہیں پسند کیا گیا۔یا جومجھے پسند آئیں۔
پہلی خود نوشت جو پڑھی۔وہ جوش ملیح آبادی کی” یادوں کی برات "تھی -اور اس پر حکومت وقت نے پابندی لگا رکھی تھی۔ہماری دوست کے گھر موجود تھی ۔سو ہمیں پڑھنے کاموقع مل گیا ۔قدرت اللہ شہاب کا” شہاب نامہ ”
زیڈ اے بخاری کی” سرگزشت "مشتاق احمد یوسفی کی سرگزشت اورشام شعر یاراں "مختار مسعود کی” لوح ایام "اور ممتاز مفتی کی ایلی پور کا ایلی کے علاوہ موجودہ دور میں محترم شجاعت علی راہی کی ہمہ جہت زندگی کی عکاس ضخیم خود نوشت” بلیک باکس” ان کی ذاتی زندگی کے علاوہ ادبی تعلیمی ثقافتی زندگی کی عکاسی کرتی ہے۔
ایک اور مہربان شخصیت ڈاکٹر نیاز محسن مگھیانہ کی انوکھا لاڈلا اور کھیلن کو مانگے چاند "بھی اپنے نام کی طرح منفرد ہیں۔اس کے علاوہ میجر جنرل (ر )عاشور خان کی انگریزی خود نوشت کو اردو کے قالب میں ” جہد وجستجو ” کے نام سے شجاعت علی راہی نے ڈھالا ہے
ان تمام خود نوشتوں کے جھرمٹ میں ایک نام سلمان باسط کا رخ کتاب پر دکھائی دے رہا تھا۔اور نوسٹیلجیا کی کچھ اقساط رخ کتاب پر پڑھیں۔انداز تحریر اچھالگا۔اس وقت عالمی اخبارمیں اپنی خود نوشت کی کافی ساری اقساط لکھ چکی تھی۔”نوسٹیلجیا "اس نام اور ان کے دادا کے اس واقعے نے متاثر کیا۔کہ جب وہ بچوں کی غلطیاں چیک کرتے ہوئے غلطی کے حساب سے چھڑیاں رسید کرتے جاتے۔ایک بچہ جو بہت گھبرایا ہوا تھا۔اس کے قریب پہنچے تو ڈر کے مارے ہاتھ سے کاپی گر گئ۔جی میری ساری غلطیاں ہیں۔معرفت کی گود میں پلے بابا جی اس جملے کی تاب نہ لاسکے۔ایک دلدوز چیخ ماری۔اور زاروقطار رو رو کر کہنے لگے۔یا اللہ مجھے معاف کر دینا۔میری تو ساری ہی غلطیاں ہیں۔
چیدہ چیدہ اقتباسات پسند آئے تو سلمان باسط سے رابطہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ سعید بک بنک سے مل جائے گی۔سو پہلی فرصت میں کتاب منگوائی۔اور پڑھنا شروع کی۔تو پھر ختم کرکے ہی دم لیا۔
کسی کتاب کی یہ بڑی خوبی ہے۔کہ وہ خود کو پڑھوائے اور قاری پڑھتے ہوئے اس میں گم ہو جائے۔ نوسٹیلجیا تومجھے ماضی کی پگڈنڈیوں پر لے گئ۔اور بیک وقت میں دو دنیاؤں کی سیر کرتی رہی۔
کمالیہ، واہ کینٹ، کھاریاں، مختلف سکول ،اساتذہ، ہمسائے ان کا مختصر تعارف میں ان تمام گلیوں، کھیت کھلیانوں میں بھاگتی دوڑتی رہی۔یہ وہ زمانہ ہے ۔جو کم وبیش میرا بھی ہے۔وضع دار گھرانے، شرم وحیا اور پابندیاں جن کا آج کل کی نسل تصور ہی نہیں کر سکتی۔
ریڈیو اور اس پر کروشیے کا کور۔ہمارے گھر میں بھی بڑا سا ریڈیو اور اس پر کڑھائی کیا ہوا خوبصورت کورریڈیو کی نشریات، شارٹ ویو اورمیڈیم ویو کے چکر میں بار بار بٹنوں اور سوئی کو گھمانا فرمائشی پروگرام اور ڈرامے کیا کچھ یاد آتا چلا گیا۔حساب تو ہمیں آج تک نہ آیا
۔آہا "چیز "کہہ کر ایک بھولا بسرا لفظ اور دور یاد آگیا۔جب کچھ بھی لانا ہوتا تو بچے توبچے مائیں بھی کہتیں۔چیز لے آو۔ چیز اور ڈانگری کھانے کا یہ حصہ بہت دل چسپ ہے۔اسی طرح نہاتے ہوئے دونوں بھائیوں کا پانی کی ڈولچی کو دودھ کاپوا سمجھ کر دودھ فروش کی طرح پوے کو حرکت میں لانا، دودھ کا کاروبار کرنا، لڑنا اور بغیر نہائے باہر آجانا۔واقعے کو تصویر بنا دینا سلمان باسط کے دلربا انداز تحریر کا خاصہ ہے۔
بچپن، لڑکپن اور دور طالب علمی کی یادوں سے چن چن کر تصویریں نکالی ہیں۔اور ان تصویروں سے دلآویز مونتاژ تشکیل دے ڈالا۔ایسا مونتاژ کہ زندگی کا ہر دور ہر رنگ ہرانگ پوری آب وتاب کے ساتھ نظر آئے۔
مس نگہت جانے کہاں ہوں گی۔مگر سلمان باسط نے اپنے قلم، نہیں موقلم سے ان کی تصویر میں محبت بھرے رنگوں کے وہ سٹروک لگائے ہیں کہ زندہ جاوید کردیا ہے۔بحثیت استاد یہ حصہ پھر مجھے ماضی کی شاہراہ پر لے گیا۔میری خود نوشت میں بھی میرے اساتذہ خاص طور سرحد کی اولین افسانہ نگار مس فہمیدہ اختر علیکوزئ کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔اچھے استاد ہمارےذہنوں دلوں، اور لفظوں میں زندہ رہتے ہیں۔اور کردار میں جگمگاتے ہیں۔سلمان باسط بطور انگریزی زبان کے استاد مس نگہت کے نقش قدم پر ضرور چلتے ہوں گے۔سلمان کے اپنے والد درس وتدریس سے منسلک رہے ہیں۔اس لئے کتاب کابیشتر حصہ مختلف علاقوں درسگاہوں کے احوال پرمشتمل ہے۔اس کتاب کے آئینہ میں کتنے ہی پیارے چہرے مجھے یاد آئے۔ان کی والدہ ماجدہ کا کردار، صفائی پسندی اور چادروں پر شکن نہ پڑنے دینا تو مجھے اپنی امی یاد آگئیں۔84 سال کی عمر میں بھی غسل خانے کی طرف جاتے جاتے چادر ٹھیک کر کے جاتیں۔یہاں تک کہ سفر آخرت پر روانگی سے دو دن پہلے بھی بھابھی کو کہتی ہیں۔کہ یہ چادر تو ٹھیک کر دو۔آہ
بہت جگہ مسرتیں تھیں۔تو آنسوؤں کی دھند بھی چھائی رہی۔سقوط ڈھاکہ کا دکھ لفظوں میں بیان نہیں ہوسکتا ابھی ابھی تو شکیل احمد اپنی گھن گھرج والی آواز میں فتح اور پیش قومی کی کہانی سنارہے تھے۔پھر شام کو جنرل اروڑا کے سامنے ذلت آمیز انداز میں ہتھیار پھینکنا اور 90 ہزار فوجیوں کا جنگی قیدی بن جانا،ایسا المناک حادثہ تھا۔کہ ہفتوں اس پر روتے رہے۔پوربو پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔اس دکھ کو آج بھی ہم نہیں بھولے۔
۔کتاب کے آخری ابواب خاص طور پر گورنمنٹ کالج لاہورکا بیان، پے درپے کامیابیاں، شاعری، راوین کا ایڈیٹر ہونا، بے شمار دوستوں، ساتھیوں، اور انگریزی کے پروفیسرز کے تذکرے میں محبت کے انمول رنگ بھرے ہیں۔ان ہی میں روحی بانو اور کچھ اورمعروف اداکاروں کے بھی تذکرے ہیں۔
یاور حیات انہیں اداکاری کے لئے منتخب کر لیتے ہیں۔گھر اجازت لینے جاتے ہیں۔تو ماں بڑے پیار سے اور قطعی انداز میں منع کر دیتی ہے۔نہ میرا بیٹا نام بھی نہ لینا۔اور یہ فرمانبردار بچے کی طرح چپ چاپ کالج لوٹ جاتے ہیں۔ماں کے مختصر دو جملے ایک پوری تہذیب، اقدار رکھ رکھاو کے مظہر ہیں۔سلمان باسط کی شخصیت میں اس کے اجداد اور والدین کی تعلیم وتربیت کا ہی اثر تھا۔کہ مخلوط تعلیم اور شاعرانہ مزاج رکھنے کے باوجود ان کے قدم کہیں نہیں ڈگمگاے۔خالہ کو دس روپے دینے کے باوجود وہ ان سے کوئی خدمت نہیں لے سکے۔شاید اس کی وجہ وہ گوری چٹی گلابی سی کزن بھی ہے۔جو بچپن سے ان کے ہر کھیل کی ساتھی ہے۔
محبت کی چاشنی اور شاعرانہ رنگ کے چند جملے اس طویل پیراگراف سے ملاحظہ کیجئے
ہم دونوں ایک دوسرے کا ساتھی بننے کو تر جیح دیتے۔سب بچے ایک دوسرے کوپکڑنے کا کھیل کھیلتے۔تو میں کم ہی کسی سے پکڑا جاتا۔لیکن وہ ہمیشہ مجھےڈھونڈ نکالتی۔پکڑلیا پکڑ لیا۔میں اس کے ساتھ خاموشی سے گھسٹتا جاتا۔اس کے گال سرخ اور آنکھوں سے کامیابی کے چھینٹے اڑنے لگتے۔میں اس پھوار میں بھیگتا رہتا۔ایک اور کھیل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔تم کس کو لینے آتے ہو
اس کھیل میں جانے کتنی باریاں آئیں۔جب ہم ایک دوسرے کی طرف کھنچتے گئے۔اور کوئی ہمیں واپس نہ لے پایا۔ ایک دوسرے کو اپنی جانب کھنچتے کھینچتے ہم بڑے ہوگئے۔اور ایک دن ہم ایک دوسرے کی زندگی میں کھینچ آئے کہ قدرت نے ہمیں شریک حیات بنادیا۔
دیکھا تحریر کو تصویر بنانے کا مصنف کو کیسا ہنر آتا ہے۔
نانی کا گھر ہو چوپال ہو یا کالج کا احوال سلمان باسط نے یادوں کے چمکتے دمکتے ٹکڑے جوڑ کر دل آویز مونتاژ تخلیق کر ڈالا ہے۔
سلمان باسط ایک اچھے نثر نگار کے ساتھ منفرد لب ولہجے کے شاعر بھی ہیں۔انگریزی ادب پڑھاتے ہیں۔اور خاکہ نگاری بھی خوب کرتے ہیں۔ان تمام رنگوں سے ان کا طرز تحریر اور اسلوب بیان مزین ہے۔تشبیہات واستعارات سے نثر میں رنگ بھرتے ہیں۔خاکہ نگاری کی صلاحیت سے دادا جان، والدہ، والد حتی کہ وفادار گھریلو ملازمین کے خاکے قاری کادل موہ لیتے ہیں۔
کسی بھی خود نوشت کی بنیادی خوبی اس کی سچائی ہے۔مبالغے سے، بے جا بڑائی اور تصنع سے پاک ایک ایسی دلربا دستاویز ہے۔جس میں ایک پورے دور کو، تہذیب وثقافت رکھ رکھاو رشتے ناطے، حتی کہ گھریلو ملازمین سے حسن سلوک اور ان کی وفاداری کو محفوظ کردیا گیا۔وہ تہذیب جو تیزی سے زمانے کی گرد میں روپوش ہوتی جارہی ہے
مجھے محفوظ کرلے اے زمانے
میں اک کتبہ ہوں مٹتا جا رہا ہوں
میں اس عمدہ خود نوشت پر دلی مبارکباد کے ساتھ دعا کرتی ہوں۔کہ وہ جلد اس کادوسرا حصہ کتابی صورت میں سامنے لائیں۔سلامت رہیں قلم بدست رہیں۔