غالب کو ایک دن ایک خیال غالب آیا، اس نے دل کی بات قلم کے راستے لکھ کر اپنا تو دل ہلکا کر لیا لیکن میری آنکھوں نے غالب کے اس شعر کو خواب بنا کر تعبیر ڈھونڈنے میں لگا دیا۔
؎اپنا نہیں شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں
اُس در پہ نہیں بار تو کعبے کو ہی ہو آۓ
ایک علمی گھرانے سے تعلق ہونے کے ناطے لازم تھا کہ مجھے بچپن سے ہی علم و ادب کی راہ پر چلنے کے لئے ایک ” بابا جی ” کے قلم سے نکلے لفظوں میں سے زندگی کی راہ ڈھونڈنی تھی۔ جس خوبصورت انسان کے قلم سے نکلی سیاہی سے زندگی کی روشنائی حاصل کی، وہ میرے پسندیدہ ترین مایۂ ناز مصنف /سفر نامہ / ناول / کالم نگار محترم مستنصر حسین تارڑ صاحب ہیں۔ بچپن سے اس راہ ہو لی، بس پھر پلٹ کر واپس نہیں دیکھا۔ چونکہ ایک لڑکی تھی اور معاشرہ میں لڑکیوں کا یوں اکیلے باہر جانا، پہاڑوں کی سیروں کو نکلنا، سرسبز وادی کے جنگلات میں گُم ہو جانا، جھیلوں کے کنارے بیٹھ کر دُور کنارے بنی جھونپڑی کے خواب دیکھنا، راکا پوشی سے چشم پوشی کرنا، پھر جزائر انڈمان، کمبوڈیا، ویت نام، آسٹریلیا جیسا سفر اور میں تن تنہا لڑکی، لیکن تھکی نہیں، تارڑ صاحب کے قلم سے بندھی روس، یورپ و امریکہ گھوم آئی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یہ میرے بابا جی، مستنصر حسین تارڑ ہی ہیں جن کے سحر انگیز سفر نامے پڑھتے ہوۓ میں بڑی ہوئی۔
اب میری زندگی کا ایک بڑا سفر تھا۔ وہی غالب کے شعر والا وقت، میری جیتی جاگتی آنکھوں سے دیکھے خواب کا سفر، اپنے خالق، اپنے مالک، اپنے سب کچھ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر شکر ادا کرنے کا وقت۔ میں کیسے اٹھی، کیسے کھڑی ہوئی، کیسے چلی، کیسے پہنچی، کچھ پتہ نہیں تھا، بس اتنی دھندلی یاد ہے، کہ میرا منہ ول کعبہ تھا اور آنکھیں ساکت تھیں۔ انہی ساکت آنکھوں سے میں مدینہ میں پہنچی، کیا یہ ایک خواب تھا۔ میں واپس کیوں آگئی ہوں؟ میں اپنے آپ سے سوال کرتی تھی۔ میں اُڑ کے دوبارہ جانا چاہتی ہوں۔ ساکت آنکھوں سے طواف کرنا چاہتی ہوں۔
بابا جی نے میری کیفیت بھانپ لی۔ میں اپنے دیکھے خواب کو اب بار بار پڑھنا چاہتی تھی۔ بابا جی نے ہمیشہ سے اپنی شفیق مسکراہٹ سے دیکھا اور میرے خوابوں کی تعبیر والی کتاب مجھے پکڑائی، کتاب کا سرورق دیکھا، آنکھیں ساکت ہو گئیں۔
منہ ول کعبے شریف” کو پڑھنے کے بعد ساکت آنکھوں میں نمی، ہونٹوں پر مسکان اور دل میں مچلتی خواہشِ دیدارِ ربِ ذوالجلال کے ساتھ اب رحمخیز جذباتی سرور اور وجدانی کیفیت سے دوچار ہوں۔ جو کچھ آنکھوں سے دیکھ کر آئی تھی، ان کو بیان کرنا نہیں آتا تھا۔ لفظوں میں ڈھالنا نہیں آتا تھا۔ لیکن اب وہ سب کچھ ہر سیکنڈ کے ہزارویں لمحات کا منظر تک میری آنکھوں میں طواف کر رہا ہے۔ کبھی روتی ہوں غلاف کعبہ پکڑ کر، کبھی مقام ابراہیم کی طرف دیکھتی ہوں، کبھی صفا مروہ کی طرف دوڑتی ہوں، کبھی آنکھ کھلتی ہی روضہ رسول پاک صلی علیہ وسلم کی مقدس جالیوں کے ساۓ تلے ہے۔ ان تجربات و احساسات کو قرطاس پر اتارنے کا سوچ کر بھی اس منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنا سکی کہ الفاظ ساتھ نہ دیتے تھے۔ وہ جذبات اتنے نا قابلِ بیان ہوتے ہیں کہ خود انسان کو ان جذبات و احساسات کو سمجھنے اور سمجھانے میں جیسے صدیاں بیت جائیں لیکن وہ سحر کبھی ختم ہونے کا نام نہ لے اور سالوں بیت جانے کے بعد بھی وہ نقش ذہن ایسے تازہ ہوں کہ جیسے ابھی کل ہی کی بات ہو۔۔۔اور یہ سب وہ ہی محسوس کر سکتا ہے جو اس سب عمل سے گزر چکا ہو۔ اس لحاظ سے یقیناً حج کا سفر نامہ لکھنا اپنے آپ میں ایک مشکل ترین ٹاسک ہے۔ کیونکہ وہاں ہم اپنے اپنے من کی کالک اتارنے اپنے رب ک حضور سر کو خم دیے راز و نیاز کرتے ہیں جو شاید دنیا میں کسی اور کے آگے نہیں کر سکتے۔ لیکن تارڑ صاحب نے ایک ایک لمحے، ایک ایک جذبے اور ایک ایک احساس کو جس ایماندارانہ تفصیل اور عمدگی سے الفاظ کے حسین رنگوں میں ڈھال کر کینوس پر اتارا ہے وہ مجھ سمیت وہاں جانے والے ہر نفس کے احساسات اور جذبات کی حقیقی ترجمانی ہے۔ شاید ہم میں وہ فن نہیں کہ اپنے احساسات کو اس مہارت کے ساتھ کاغذ کی نذر کر سکیں جو تارڑ صاحب کے پاس خداداد صلاحیت کے روپ میں موجود ہے۔ ایسے کہ پڑھنے والا ایک سحر میں مبتلا ہو جاۓ، خود کو اسی بیان کردہ ماحول میں تصور کرنے لگے اور داد دیے بغیر نہ رہ سکے. اور اس فن میں تارڑ صاحب کو خاص ملکہ حاصل ہے۔
تارڑ صاحب نے کتاب کے پہلے حصے میں حج کا ایک تفصیلی منظر نامہ پیش کیا ہے۔ جدہ شہر کے طول و عرض اور اس کی رونقوں کا تذکرہ کرنے کے بعد حج سے پہلے، پروردگارِ عالم کے جلال اور اس کے حضور اس کی بارگاہ میں حاضری اور پہلے طواف کے وقت کی جو منظر کشی کی ہے وہ نہایت ہی دلکش اور منفرد ہے۔ ایک ایک لمحے کی منظر کشی کرتے ہوۓ طواف کے پہلے ہی چکر کا اتنا طویل اور خوبصورت بیان ہے کہ انسان بے خود ہو کر ایک بحرِ بے کراں کی طرح اس مقناطیسی طاقت کی طرف خود بہ خود کھنچتا چلا جاۓ۔
” خانہ کعبہ کی دیوار بھی ایک دیوارِ گریہ تھی۔ لیکن یہ کیا کہ درجنوں ماننے والے جو اس کے ساتھ کیکڑوں کی مانند چمٹے ہوۓ تھے، دیوار کے پتھروں میں اپنی جان بھرتے تھے اور یک جان ہو جاتے تھے”
” اس گیلی دیوار پر میں ہونٹ رکھتا تھا، اسے بوسہ دیتا تھا دیر تک اپنے لب رکھتا تھا، پھر ماتھا ٹیک کر مانگنے میں محو ہو جاتا تھا تو پھر بے تابی ہوتی تھی کہ ایک اور بار وہیں لب رکھ دوں، محبوب کے چہرے کو چومتے ہوۓ کون سیر ہوتا ہے، کس کی تسلی ہوتی ہے کہ بس کافی ہے، لب ہٹاتے ہی ایک اور بوسے کی طلب ہوتی ہے۔”
تارڑ صاحب نے نہایت عمدگی کے ساتھ طواف کے سات چکروں میں ایک کھوٹے سکے کے کھرے ہونے تک کے مراحل ترتیب وار بیان کیے ہیں۔ جو کھرا ہو جانے کے بعد نہ چاہتے ہوۓ پھر سے دنیا کے بازار میں نکل پڑتا ہے۔
حج کے سفر میں احرام باندھنے سے لے کر، منٰی میں دن اور راتیں، عرفات کی طرف کوچ، دامنِ جبلِ رحمت، خطبۂ حج، مزدلفہ میں بھٹکے ہوۓ آہو جو نکلے ہیں رات کے اندھیرے میں،کنکریوں کی تلاش میں، شبِ مزدلفہ سے بڑے شیطان تک،عید پر احرام اتار کر، طوافِ زیارہ، حضرت ہاجرہ کے نقشِ پا پر سعی کرتے ہوۓ دنیاۓ عالم کی عورتوں کو خراجِ تحسین اور آخرمیں چھوٹے شیطانوں کو مارنے کے بعد ایک ایک تجربے کو اتنی خوبصورت اور جذباتی تفصیل سیبیان کر دیا ہے کہ جیسے ہم خود وہاں موجود یہ سب اپنی آنکھوں سے نظارہ کر رہے ہیں۔کس طرح حج کی عبادت ایک انسان کو پھر سے ایک نئے انسان میں تبدیل کر دیتی ہے، کس کس مقام پہ ایمان میں مزید پختگی پیدا ہوتی ہے اور ظاہر و باطن میں کیسے کیسے معجزے رونما ہوتے ہیں۔ ہر ہر مقام پر مناسکِ حج کی عام فہم اور دلکش تو جیہات پیش کرتے ہوۓ اپنے ہی سوالوں کا خود ہی جواب دیتے گئے جو شاید بہت سے سوال اٹھانے والوں کی تسلی کے لئے کافی ہیں۔
؎ جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلیبادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جاۓ
تارڑ صاحب کہتے ہیں، ” میں نے زندگی بھر آج تک جتنے بھی سفر کیے ہیں، جتنی بھی صحرا نوردی، کوہ نوردی اور آوارگی کی ہے، وہ سب اس ایک سفر کے سامنے ہیچ ہیں۔ مجھے واقعی گمان نہ تھا کہ ابھی میری حیات میں ایک ایسا تجربہ بھی رونما ہوگا جس کے سامنے ماضی کے سارے رنگ پھیکے پڑ جائیں گے، بلکہ کچھ نئے رنگوں کا ظہور ہوگا جو اس سے پیشتر آنکھ نے نہ دیکھے تھے۔”
کتاب کے دوسرے حصے میں تارڑ صاحب نے طائف کا سفر بلکہ رنجِ سفر کا حال بیان کیا ہے۔ وہ جگہ جہاں سرورِ کونین، رحمتِ دوعالم آنحضورﷺ کو اہلِ طائف نے پتھر مار مار کر لہو لہان کر دیا تھا، وہی مقام جہاں مٹی نے آپﷺ کے لہو مبارک کو جذب کیا تھا، جہاں ایک نوجوان عیسائی غلام عداس نے محسنِ انسانیت ﷺ کو انگور کا خوشہ پیش کیا اور پورے طائف میں صرف وہی ایک شخص تھا جس نے آپﷺ کو پہچان لیا اور ان کا غلام ہو گیا، جس کے نام پر آج بھی اسی مقام پر مسجدِ عداس موجود ہے۔ بقول تارڑ صاحب، طائف کا سفر، ایک رنجِ سفر تھا۔
کتاب کے تیسرے اور آخری حصے میں تارڑ صاحب نے مدینہ منورہ اور روضۂ رسولﷺ کی تجلیوں کا پُر کیف تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ مدینہ کی حدود میں داخل ہونے سے لے کر مسجد النبویﷺ میں قدم رکھنے تک کس طرح تڑپتے ہوۓ زائرین اور سائلین کی نظریں رُخِ یار، گنبدِ خضراء کی دیوانہ وار متلاشی ہوتی ہیں۔ اصحابِ صُفہ اور مسجد النبویﷺ میں موجود اس چبوترے کی دلنشین، محبت و عقیدت سے بھرپور یادیں تازہ کی ہیں۔
؎روشن جمالِ یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتشِ گُل سے چمن تمام
روضۂ رسول کی جالیوں کی جانب بڑھتے ہوۓ نبی آخر الزماں ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے دکھوں اور تکلیفوں کا جس انداز سے جامع اور مختصر تذکرہ کیا ہے کہ پڑھنے والے کی آنکھوں میں نہ رکنے والی جھڑی لگ جاۓ اور دل نبی پاکﷺ کی محبت سے مزید پھٹنے لگے۔
"روضۂ رسول ﷺ سے وصال کی جو ساعت قریب آتی ہے، وہاں کا موسم جونہی پیاسے بدن پر ہولے سے بادِ نسیم کے ایک جھونکے کی مانند، اسے چھوتا ہے، تو خوشگواری اور کیف ایسے مست کرتے ہیں کہ سر تو جھکے ہوتے ہیں، کندھے بھی جھک جاتے ہیں۔ جتنا جھکا جا سکتا ہے اتنا ایک انسان جھک جاتا ہے۔ جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جاتا۔ انہیں اس وجہ کے طفیل جس وجہ کے لیے وہ یہاں آۓ ہیں اس کی قربت انہیں قرار دیتی ہے۔”
مدینہ منورہ کا ذکر تو جنت البقیع کے بغیر ادھورا ہے۔ "جنت البقیع۔ دنیا کا سب سے خوش قسمت قبرستان۔ جس کی مٹی میں کیا صورتیں پنہاں ہیں۔ ایسی صورتیں جنہیں لالۂ و گل میں نمایاں ہونے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ لالۂ و گل ان میں نمایاں ہوتے ہیں۔ جس کی مٹی کا ہر ذرہ کسی نہ کسی ایسے جسد کو چھوا ہے جس نے اس ذرے کو بھی آفتاب بنا دیا ہے۔”
میدانِ احد کے پہاڑوں سے لے کر، مرقدِ امیر الشہدا حضرت حمزہ رضی اللہُ عنہ، مسجدِ قباء، مسجدِ قبلتین، بیئرِ عثمان رضی اللہُ عنہ، جنگِ خندق اور مدینہ کے ترکی ریلوے سٹیشن کا تاریخی حوالوں کے ذریعے ایک پُر اثر اور جداگانہ ادبی اندازِ بیان دل کو موہ لیتا ہے اور پڑھنے والا اس پورے منظر میں محو و غرق ہو جاتا ہے جیسے سب کچھ اس کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ جمالِ یار جہاں روشن و آشکار ہوا اس غارِ حرا تک پہنچنے کی جستجو میں جبلِ نور کی کوہ نوردی کے دلچسپ احوال کے بعد طوافِ وداع کی اداسیوں کا قصہ خوبصورتی سے قارئین تک پہنچایا گیا ہے۔
"در اصل کوئی بھی شخص جب ایک بار اس سفید گرداب کا حصہ بن جاتا ہے تو عمر بھر اس میں سے نہیں نکل سکتا۔ اس کا طواف کبھی مکمل نہیں ہوتا۔ وہ بیشک اپنے اس دور کے شہر کو لوٹ جاۓ، جہاں سے وہ آیا تھا، اپنے گھر میں چلا جاۓ، دنیا کی کشش کے آگے پھر سے ہتھیار ڈال دے، اپنی ذات، قبیلے اور خاندان سے جڑ جاۓ تب بھی اس کا بدن اسی گرداب میں حرکت کرتا رہتا ہے۔ یہ زندگی بھر کا طواف ہے۔ اس کا کوئی انت نہیں۔”
اس تمام تجربے کے دوران ہر مقام پر تارڑ صاحب نے ایک منجھے ہوۓ ادیب و سفر نامہ نگار کی حیثیت سے اپنی ہوشیار حسِ مشاہدہ کو استعمال کرتے ہوے نہایت منفرد، دلکش اور شائستہ مزاح کا سہارا لیتے ہوۓ وہاں موجود مختلف ملکوں کے لوگوں کی انفرادی و اجتماعی عادات و اطوار، مزاج اور نفسیات کا بھی تفصیلی جائزہ ہلکے پھلکے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہیجس کو پڑھتے ہوۓ قاری خوب محظوظ ہوتا ہے۔
یہ خوبصورت مسحور کن کتاب ایک نہایت شائستہ،عمدہ اور عام فہم اسلوب میں لکھی گئی ہے جو ایک طرف آپ کو حج اور اس سے جڑی معلومات کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور ہر ہر مقام پر اس سے جڑے تاریخی واقعات کے حوالوں کے ساتھ ساتھ، دوسری طرف یہ ربِ کعبہ کے ایک بندے کی طرف سے اپنے پرودگار اور اس کیمحبوبﷺ کی عقیدت مندانہ مدح سرائی ہے جو پڑھنے والوں کو ایک شگفتہ و منفرد کیف و سرور سے دوچار، بلکہ لاچار کر دیتی ہے۔ اور بلا شبہ یہی اس کتاب کا حسن اور مصنف کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
میں پھر اس خواب میں ڈوب جانا چاہتی ہوں، میں اپنی ساکت آنکھوں سے طواف کرنا چاہتی ہوں، میں پھر اپنا منہ ول کعبے شریف کرنا چاہتی ہوں۔ میں ایک ایسی مطمئن روح بن جانا چاہتی ہوں، جس کو رب اپنے پاس اُس وقت بلاۓ جب وہ اس سے راضی ہو جاۓ۔