fbpx
Blogsبلاگ

ساسوں کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں/کنول بہزاد

 

دوستو ! قصہ کچھ یوں ہے کہ آج کل الٹی گنگا بہتے دیکھ کر ہم حیران و پریشان ہیں ۔۔۔ آج کل” ساسوں” پر بڑا برا وقت آیا ہوا ہے ۔۔۔ستم یہ کہ کل جب یہ ساس بہو تھی تو تب بھی زیر عتاب تھی۔۔۔دبنگ ساس کے سامنے بیچاری چوں بھی نہ کر سکتی تھی اور آج خود ساس ہے تو بھی بھیگی بلی بنی ہوئی ہے ۔۔۔وائے قسمت ۔۔۔زمانے کے رنگ ڈھنگ ایسے بدلے کہ وہ جو تمام عمر سوچتی رہی کہ اپنا بھی ٹائم آئے گا ۔۔۔ٹائم آیا تو چاروں خانے چت ۔۔۔

کچھ دن پہلے ہم اپنی ایک سہیلی کے ہاں پہنچے جو حال ہی میں ساس کے عہدے پر فائز ہوئی ہے تو اسے ویران پڑے گھر کے کونے کھدرے میں سر پہ پٹی باندھے۔۔۔ عالم استغراق میں دیکھا ۔۔۔ہائے۔۔۔کلیجہ دھک سے رہ گیا ۔۔۔

پیاری نمو کیا ہوا تمہیں ۔۔۔سب خیر تو ہے نا۔۔۔

"بس میرا سر درد سے پھٹا جاتا ہے ۔۔۔” نقاہت سے بولی ۔

کوئی دوا لی تم نے ۔۔۔اور سب گھر والے کہاں ہیں ؟”

ہم نے پوچھا ۔۔۔

” بہو سو رہی ہے ۔۔۔باپ بیٹا اپنی اپنی ملازمت پر ۔۔۔اور ملازمہ  چھٹی پر ہے” روہانسی ہو کر گویا ہوئی۔۔۔

ہم نے سامنے گھڑیال دیکھا جو دوپہر کے دوبجا رہا تھا ۔۔۔

خیر اب پھنس ہی گئے تھے۔۔۔کچن میں پہنچے جو گندے برتنوں سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔بمشکل چائے بنائی ۔۔۔ساتھ بسکٹ اور پیناڈول کی گولیاں رکھیں اور نمو کو کھلایا پلایا تو کچھ ہوش میں آئی ۔۔۔

” نمو ! مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب تو نے یہ رشتہ کیا تھا تو فخر سے بتایا تھا کہ اس خاندان کی لڑکیاں گھر کے پیچھے ایسی دیوانی ہیں کہ کام کر کر کے ان کے ہاتھوں کی لکیریں گھس جاتی ہیں ۔۔۔مگر یہاں تو سب الٹ دکھائی دے رہا ہے

” خدا کے لیے آہستہ بولو ۔۔۔بہو نے سن لیا تو طوفان کھڑا کر دے گی ۔۔۔”

نمو نے ہاتھ جوڑے ۔۔۔ہم نمو کی اس  کایا پلٹ پر انگشت بدنداں رہ گئے ۔۔۔ اچھی خاصی بہادر ہوا کرتی تھی کبھی ۔۔۔پھر جلد ہی رخصت چاہی کہ عافیت اسی میں تھی۔۔۔نمو کی محبت میں جھاڑو پوچا بھی لگانا پڑ سکتا تھا ۔۔۔دل ہی دل میں نمو کے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے پر فاتحہ پڑی۔۔۔نمو کے اس تازہ دکھ پر آنکھیں نم ہو گئیں ۔

 

ابھی اس غم سے سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ ایک اور سہیلی کی طرف سے بیٹے کی شادی کا بلاوا آ گیا ۔۔۔میری ہونے والی بہو ڈاکٹر ہے ۔۔۔یہ جملہ اس نے بڑے فخر سے دس بار دہرایا ۔۔۔

” واہ بھئی بڑی خوش نصیب ہو تم رافعہ۔۔۔ڈھیروں ڈھیر مبارکباد قبول کرو کہ دکاندار بیٹے کے لیے اتنا اچھا رشتہ مل گیا ۔۔۔”

ہم نے خوش ہوکر کہا ۔

خیر بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی ۔۔۔خوب رونق رہی ۔۔۔سب رافعہ اور اس کے بیٹے کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے رہے ۔۔۔

کئی مہینے بعد اچانک رافعہ مارکیٹ میں مل گئی ۔۔۔سوکھ کے کانٹا ہو رہی تھی ۔۔۔پہچانی ہی نہ گئی ۔۔۔حال احوال پوچھا تو سامنے ایک فروٹ چاٹ  کی دکان میں لے گئی ۔۔۔اور وہاں پہنچ کر چہکوں پہکوں رونے لگی ۔۔۔

” یار۔۔۔یہ کیا افتاد ہے۔۔۔” ہم گھبرا گئے ۔

” جس دن سے بہو گھر میں آئی ہے میرا جینا حرام ہو گیا ہے ۔۔۔آتے ہی اس نے سب سے پہلے ہمارے کھانوں پر پابندی لگا دی ۔۔۔یہ دل کے لیے مضر ہے۔۔۔ یہ گردوں کے لیے ۔۔۔یہ جگر کے لیے نقصان دہ ہے یہ لبلبے کو متاثر کرتا ہے ۔۔۔یہ معدے کے لیے ۔۔۔بس دن رات یہی گردان ہے۔۔۔بیٹا بھی اس کا ہمنوا بن گیا ہے ۔۔۔خود یا ہسپتال ہوتی ہے یا شاپنگ مال ۔۔۔اپنی تنخواہ کا دھیلا بھی خرچ نہیں کرتی۔۔۔کہتی ہے وہ فیوچر کے لیے ،بچوں کے لیے سیو کر رہی ہوں۔۔۔بیٹے کی ساری آمدنی اس کی جیب میں جاتی ہے ۔۔۔ہم میاں بیوی اپنی اپنی پنشن سے گھر چلا رہے ہیں ۔۔۔”

ہم نے تسلی کے دو کی بجائے چار بول بولے کہ کچھ تو افاقہ ہو مگر وہ اداس بیٹھی رہی۔۔۔

ہم نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے دو فروٹ چاٹ کی پلیٹیں بھی منگوا لیں ۔۔۔کچھ نہ پوچھیں بیچاری نے کس شوق سے کھائیں ۔۔۔”کھائیں ” اس لیے کہ آدھی میری بھی کھا گئی۔

اب ہم دانستہ ساسیں بن جانے والی سہیلیوں سے دور دور رہنے لگے۔۔۔مگر شومئی قسمت کہ پھر ایک ساس سے سر راہ جا ٹکرائے۔۔۔ وہ جون کی کڑکتی دوپہر تھی اور ہم مجبوراً اس گرمی  میں چیک اپ کے لیے فاطمہ میموریل اسپتال گئے ہوئے تھے ۔۔۔واپسی پر انٹرنیٹ اور  بیلنس نہ ہونے کے باعث اوبر نہ منگوا سکے اور رکشہ لینے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ہمیں ایک پرانی شناساحسینہ نظر آگئی جو اپنی گاڑی میں بس بیٹھنے ہی والی تھی ۔۔۔ہم حسینہ کو کئی بار لفٹ دے چکے تھے ۔۔۔سو آو دیکھا نہ تاؤ ۔۔۔اس کے سر پہ جا پہنچے ۔۔۔سلام دعا کرتے گاڑی میں بھی جھانک لیا۔۔۔آگے ایک نوجوان مرد اور خاتون موجود تھے۔۔۔خاتون کی گود میں بچہ بھی تھا۔۔۔پچھلی سیٹ خالی تھی ۔۔۔

” گھر جا رہی ہیں نا ۔۔۔” ہم نے تصدیق چاہی۔۔۔

” ہاں گھر ہی جا رہے ہیں ۔۔۔یہاں ذرا پوتے کے چیک اپ کے لیے آئے تھے ۔۔۔”

” مجھے ذرا مسلم ٹاؤن موڑ تک ڈراپ کر دیں گی ۔۔۔؟”

ہم نے پوچھا ۔۔۔

” ہاں ہاں کیوں نہیں ۔۔۔آئیں بیٹھیں ۔۔۔” وہ فوراً بولیں ۔

” ہم نے گاڑی میں بیٹھ کر سکھ کا سانس لیا ۔۔۔آگے بیٹھے افراد سے ہمارا تعارف کرایا مگر انہوں نے قطعاً دلچسپی نہ لی۔۔۔نہ ہی ماں اور  ساس کی شناسا سے سلام دعا کرنا گوارا کیا ۔۔۔حسینہ نے بڑی لجاجت سے بیٹے سے کہا کہ ان کو مسلم ٹاؤن موڑ پر اتارنا ہے ۔۔۔جواب ندارد۔۔۔اب تو ہم بھی کھسیانے سے ہو گئے ۔۔۔پانچ منٹ گزرے ہوں گے کہ گاڑی رک گئی ۔۔۔

” ہمیں یہاں سے مڑنا ہے۔۔۔جلدی میں ہیں ۔۔۔آگے نہیں جاسکتے ۔۔۔”   بہو نے رکھائی سے کہا ۔۔۔

 

ہم نے حسینہ کا شکریہ ادا کیا کہ اس قدر فیور کی۔۔۔دل میں خود کو لعن طعن کی کہ بیٹھی ہی کیوں ۔۔۔حسینہ بڑبڑاتی رہ گئی کہ میں بہت شرمندہ ہوں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔مگر یہاں ہوش کسے تھا ۔۔۔کوفت اور گرمی کے مارے سمجھ ہی نہ آیا کہ کہاں ہیں ۔۔۔آخر سامنے موجود ایک فرنیچر کی دکان میں گھس گئے ۔۔۔دکاندار کسی بھلے گھر کا بچہ تھا ۔۔۔میری حالت بھانپ گیا ۔۔۔پانی پلایا ۔۔۔اے سی کے سامنے کرسی رکھ دی ۔۔۔ اس سے فون لے کر گھر کال کی۔۔۔بیٹا فورا لینے کے لیے پہنچ گیا ۔۔۔بیٹا بھی وہ جس کے رشتے کے لیے حال ہی میں ایک میرج بیورو چلانے والی دوست کو پروفائل بھیج چکے تھے ۔۔۔ سارا راستہ یہی سوچتے کٹا کہ اس دوست سے کہتی ہوں فی الحال رشتے کی تلاش مؤخر کر دے۔۔۔کہ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں بیٹے کو پچیس سال کا ہوئے۔۔۔اتنی بھی کیا جلدی کرنی۔۔۔پھر سکون سے گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے