بلاگسفر نامہسفری خاکے

دیوارِ تمنا / سلمان باسط

سفری خاکے

 

میں جرمنی کے شہر کونسٹانز کے لمس سے آشنا ہونے آیا تھا۔ سرما کا آغاز تھا۔ اگرچہ ابھی برف نے اس شہر کا رُخ نہیں کیا تھا مگر سرد ہوا میرے لانگ کوٹ کی مدافعت سے ناخوش ہو کر بار بار میرے چہرے پر اپنے یخ تھپیڑے برسا رہی تھی۔ سرخی مائل چہروں اور بلانڈ بالوں والے جرمن منہ سے بھاپ نکالتے اپنی اپنی منزل کی جانب تیزی سے قدم بڑھا رہے تھے۔ شہر کی سرخ اینٹوں والی گلیوں میں بے مقصد گھومتے ہوئے میں ایک نسبتا” کھلی جگہ پہنچ گیا۔ میری آوارہ گردی کی نہ کوئی سمت معین تھی اور نہ حدودِ وقت کی کوئی پابندی مانع تھی۔ میں نے بائیں جانب قدم بڑھا دیے۔ ذرا سے فاصلے پر ایک منظر نے میری پیش قدمی روک دی۔ ایک ہرے بھرے لان کے ایک طرف نیم سیاہ رنگت کی ایک بلند اور کشادہ دیوار تھی۔ دیوار کی فراخ پیشانی پر بائیں طرف انگریزی میں ایک غیر مختتم جملہ درج تھا۔ “ اس سے پہلے کہ مجھے موت آ جائے۔۔۔۔” یہ دراصل ہر شخص کو اپنی اپنی ناآسودہ خواہشات کو خاموشی سے اس دیوار پر درج کر دینے کی ایک ترغیب تھی۔

مجھ سے پہلے بہت سے لوگ اپنی حسرتوں کی امانتیں اس دیوار کو سونپ کر جا چکے تھے۔ میں نے کچھ دیر لوگوں کی تحریریں پڑھیں جن کی اوٹ سے کرب جھانک رہا تھا۔ پھر میں ایک میکانکی انداز میں آگے بڑھا۔ ارد گرد ایک دُزدیدہ نگاہ ڈالی اور دیوار کے سپرد وہ سرگوشی کر دی جو کسی اور کان کے لیے نہیں تھی۔

Related Articles

رائے دیں

Back to top button