واقعہ کربلا کے ان گنت گوشے ہیں جس کو ہزار ہا افکار اور نظریات کے ساتھ دیکھا اور سوچا جا سکتا ہے۔ ہر نیا شروع ہونے والا سال میرے خیالات میں نئے سوالات لیئے ابھرتا ہے ابھی جو اک بات مجھے سوچنے پہ مجبور کررہی ہے اور میری افکار کے آگے سوالیہ نشان لگا رہی ہے وہ یہ ہے کہ
بندگی کی۔۔۔عبدیت کی۔۔۔فرائض کی ادائیگی کی۔۔۔ذمہ داریوں کی۔۔۔محبت کی اور عشق کی انتہا کیا ہے؟
اور ان سب کے درمیاں ہم سب کی”میں” کہاں ہے؟
اور زندگی کے ان تمام عناصر سے گزرتے ہوئے اس حدیثِ مبارکہ کی عملی مثال کیا ہو سکتی ہے جس میں حضورِ اکرمﷺ نے برائی کو روکنے کے درجات بتائے تھے۔ اور پھر ان درجات کی انتہا کیا ہو سکتی ہے؟
یہ ساری ابتدائیں اور انتہائیں محرم الحرام کے پہلے دس دنوں میں بپا ہونے والے واقعہ کربلا میں پنہاہیں۔
محرم الحرام کے ان دس دنوں میں جو کچھ ہوا اسے بنا کسی تعصب اور بغض کے اپنے دماغ اور دل کھول کر پڑھیئے۔ پڑھ چکے ہیں تو مزید اک اور بار پڑھئے اور سمجھیئےکہ ہر شے ابتداء سے انتہا تک کا سفر کیا ہے؟ اس ابتداء اور انتہا کے درمیان میں جو بات سمجھی ہوں وہ یہ ہے کہ باطل اور حق کے بیچ کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے۔ غیر جانبداری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ Lesser Evil کا کوئی تصور نہیں ہے۔ آج ڈھیروں نظریات اور باتوں کی دلفریبیوں میں اس نسل نے اپنے پیمانے اخذ کر رکھے ہیں کم از کم یہ ۔۔ اور زیادہ سے زیادہ یہ ۔۔۔ دیکھا جائے تو یہ پیمانے تو اللہ تبارک و تعالٰی نے بنا دیئے ہیں اور ان پیمانوں پہ پورا اترنا بھی دکھا دیا۔ تو ہم کون ہیں ان پیمانوں میں گنجائش بناتے ہوئے کسی درمیانے کو حق سمجھتے ہوئے اسے قبول کرنے والے؟ ہمیں یہ اختیار کب ملا کہ ہم اپنے پیمانے ایجاد کر سکیں۔۔ اپنی ضرورت اور منشا کے مطابق۔۔۔ اور پھر ان پیمانوں کو وقت کی ضرورت قرار دے دیا جائے؟ جان لیجئے کہ حق اور باطل کا کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے جس میں آپ نیم حق یا نیم باطل کا اک عجیب و غریب نظریہ تیار کرنے کو بیٹھے ہوں۔حق وہ ہے جس کے معلوم پڑنے پہ بندہ یزیدیت کا رنگ اتر جائے۔ حق وہ ہے کہ باطل کے متعلق معلوم پڑے تو بندہ انتہا تک پہنچنے کو تیار ہو جائے ۔
راستے کے درمیاں آپ کو لگنے لگے کہ یہاں تک ٹھیک ہے اب تو کافی حد تک موزوں ہے بات۔۔۔ تو آپ حق نہیں باطل چن رہے ہیں جو لوگ آپ کو Lesser evil اور "ان جیسا تو نہیں” والا چورن بیچنے کی کوشش کریں تو وہ بھی نا خریدیں اک تو یہ واقعہ کربلا کا بنیادی سبق ہے اور دوسرے آپ کے لئے مضرِ صحت۔۔۔
برے کو برا کہنا ۔۔ اپنا مطلب نکالے بنا اور اس پہ ڈٹ جانا حسینیت ہے۔
برے کو برا کہہ کر راستے میں ڈھ جانے والے حسینی کیسے کہلا سکتے ہیں؟
عبادات، ایصالِ ثواب ضرور کیجئے مگر حق اور باطل کے تصور کو دھندلا نہ ہونے دیجئے گا۔
اور اس تصور کو خالصیت کے ساتھ اگلی نسلوں تک پہنچانے کا بھی اک ہی طریقہ ہے۔ انہیں بتائیں۔۔ سمجھائیں۔۔ بار بار دوہرائیں اور یاد کروائیں کہ بچو ! حق اور باطل میں درمیانی راستہ نہیں ہے۔ اور اپنے سر کو رب کی رضا پہ وار دینا نواسہِ رسولﷺ کی سنت ہے اور رب کی رضا کو پا لینا انتہائے عشق
Follow Us