بشیر صاحب نے شعر پوسٹ کر دیا اور آنکھیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں ۔
میں جب بھی سوچتا ہوں، کپکپا سا جاتا ہوں
حضور ﷺ ! آپؐ میرے واسطے بھی روئے تھے!
مجھے آقا سے کتنی محبت ہے اس کا کبھی اندازہ ہی نہیں ہوا۔ ہاں اردگرد کے لوگوں سے ہمیشہ یہی سنا کہ دوپٹہ لیا کرو، نقاب کرو، زبان قابو میں رکھو، نماز پڑھو، تم بہت گناہ گار ہو۔
بس اس گناہ گاری کے خوف نے وضو کی جانب اٹھتے قدم بہت بار روک دیے کہ بی بی یہ تمہاری اوقات نہیں۔ پڑھ بھی لو نماز تب بھی قبولیت ہو نا ہو ، بلکہ ممکن یہ ہے کہ نا ہو۔
گھر میں میلاد ہوتا تو دونوں بہنیں نعتیں پڑھتی ، مجھ سے کہا جاتا تو مجھ سے پہلے محفل سے آواز اتی کہ اس سے گانے سن لو ، وہی یاد ہونگے اسے اور قہقہ ۔ میں مزید دبک کر شرمندہ ہو کر بیٹھ جاتی۔
لیکن میں ہر رات اللہ سے باتیں کرتی تھی۔ گلے بھی ، شکوے بھی ۔ میں اسی سے ناراض ہو جاتی تھی۔ مجھے ہمیشہ لگا وہ مجھے سنتا ہے ، جواب دیتا ہے ، میرے نخرے بھی اٹھاتا ہے۔ وہ مجھے چاہتا ہے ۔ لیکن یہ تعلق میں سب سے چھپا کر رکھنا چاہتی تھی۔ کیونکہ یہ صرف میرا رشتہ تھا۔
پھر میں نے اللہ سے تعلق ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بہت خوفناک رات تھی۔ میں نے وضو کیا اور آخری نماز کی نیت کی۔ تب میں نے اللہ سے کہا کہ جا یار بہت ہوا، میں نے تیری مانیں، کتنا صبر کیا ، تجھ سے بس رشتوں کا سکون مانگا تھا۔ مجھے اتنی زور کا تھپٹر بے اعتباری کا کیوں مارا؟
میں نے اس رات اللہ سے کہا ،اب تو میرا دوست نہیں ہے۔۔۔۔بس ختم ۔۔۔۔یہ وہ دن تھے کہ اگلے دن کا دو وقت کا کھانا کھانے کے پیسے بھی ملیں گے یا نہیں ، کچھ واضح نہیں تھا۔ بینک خالی تھے۔ نوکری کا وسیلہ نہیں تھا۔ رشتوں کی دھجیاں بکھر چکی تھیں اور وہ شب معراج تھی۔
اگلی صبح ابا کی کال سے انکھ کھلی۔ ابا نے سلام کے بعد پہلی بات یہ کہی کہ تیاری پکڑو تم عمرہ کرنے جا رہی ہو۔کیا؟میرے پاس کھانے کے پیسے نہیں اور۔۔۔۔ابا کہتے بلانے والا جانے ۔۔۔۔کہ اس نے وسیلے کیسے بنانے ہیں۔ تمہیں یہ کیوں لگتا ہے سب تمہارے چاہنے سے ہونا ہے۔نا پاسپورٹ تھا ،،،، نا پیسہ۔۔۔سات دن میں پاسپورٹ بنے ، ویزہ لگا ۔۔۔۔
مجھے اس ہر لمحے میں لگا وہ سایے کی طرح ساتھ تھا، چھاؤں بن کرمجھے اتنا یاد ہے۔۔۔کعبہ جا کر ، کعبے تک کیسے پہنچی نہیں جانتی۔ بہت رش تھا۔ تب کسی نے کہا ۔۔۔ بیٹا کعبہ کو چھو لو تو مجھے ہوش آیا نہیں یاد کتنے دکھ ، کتنے شکوے، کتنی عرضیاں اور کتنی معافیاں اس غلاف کعبہ کے اندر سمو کر آئی میں۔
میں نے ” الحمدللہ رب العالمین ” پر صرف کعبہ کو دیکھا۔ وہ میری جانب اتنی چاہ سے مسکراتا تھا کہ مجھے لگتا تھا نہیں یہ صرف میرا رب ہے۔مدینہ کی یاد اس سے بھی پیاری ہے۔بس اج اس شعر نے ہر یاد تازہ کر دی۔ میرا دل چاہ رہا ہے بس حرم میں پہنچ جاوں اور بتاؤں۔۔۔۔اللہ سوہنے زخموں کا بوجھ پھر بڑھ گیا ہے۔ مرہم رکھ دے مالک ۔۔۔۔۔۔