کچھ دن پہلے دوستوں کے ساتھ شوارما پوائنٹ جانا ہوا۔ وہاں ہماری ٹیبل کے برابر میں ایک درمیانی عمر کے آدمی تین بچوں کے ساتھ اپنے آرڈر کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ دیر میں انکا آرڈر آیا تو ان کی بیٹی نے کہا بابا تصویر تو لے لیں۔ انہوں نے اپنا موبائل نکالا، ایک دو سیلفیز لیں لیکن سیلفی میں پوری ٹیبل نہیں آئی۔ اس نے ایک ویٹر کو بلا کر کہا کہ بھائی میری فیملی کی ایک تصویر بنا دو گے؟ جس پر ویٹر نے جھاڑنے والے انداز میں جواب دیا کہ بھائی صاحب ہمارے پاس پہلے ہی کام کا لوڈ زیادہ ہے آپکی تصویر لینے کا ٹائم تھوڑی ہے ہمارے پاس۔ وہ بھائی اس جواب سے ایک دم شرمندہ ہوگئے اور ساتھ بیٹھی ہوئی انکی چھوٹی بیٹی نے بھی اپنے بابا کی طرف حیرانی سے دیکھا۔ وہ موبائل سے بچوں کی تصویر بنانے لگے۔ تصویر لیتے ہوئے ان کے چہرے پر شرمندگی کے آثار نمایاں تھے۔
بندہ ناچیز یہ سب ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ انہیں مخاطب کر کے پوچھا کہ برادر آپ کو برا نہ لگے تو میں تصویر لے لوں آپکی فیملی کی؟ میرے سوال پر وہ فوراً مسکرائے اور کہا کہ ہاں یار بچے خوش ہو جائیں گے۔ ناچیز اپنا شوارما چھوڑ کر کرسی سے اٹھا، اُنکے موبائل سے پوری فیملی کی دو تین تصاویر لیں۔ بچوں کے بال سیٹ کروائے۔ مسکرانے کا کہا۔ سات آٹھ تصاویر لے کر موبائل انکے حوالے کیا۔ واپس آ کر جب بیٹھا تو ان بھائی صاحب نے شکریہ ادا کیا۔ کچھ دیر پہلے ویٹر کی وجہ سے جو شرمندگی ہوئی تھی وہ اسے بھول چکے تھے۔ بچے بھی موبائل میں تصاویر دیکھنے لگے۔
بعض اوقات ہمارے ارد گرد بہت سی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہو رہی ہوتی ہیں جنہیں ہم اپنے چھوٹے سے عمل سے بدل سکتے ہیں۔ تصویر لینے میں کچھ سیکنڈز لگتے ہیں، اگر آپکے اس عمل سے کسی کا دن بن جائے تو برا نہیں ہے۔ آپکی معمولی سا عمل کسی کے لیے بہت سکون کا باعث ہو سکتا ہے۔
اور ہاں، ایک باپ اپنے بچوں کا سپر ہیرو ہوتا ہے۔ کبھی بھی بچوں کے سامنے انکے سپر ہیرو کو شرمندہ نہ کریں۔ باپ کا بھرم قائم رہنے دیں۔ بچے تو شاید بھول جائیں لیکن باپ وہ شرمندگی نہیں بھول پائے گا۔