بچوں کے جنسی استحصال کے موضوع پر بات کرتے ہوئے اکثر و بیشتر اہل قلم بھی جھجھک محسوس کرتے ہیں جس وجہ سے اس مسئلہ پر معاشرے میں نہ تو کوئی بات ہوتی ہے نہ اس پر کوئی کام ہورہا ہے۔ sex , Food and shelter یہ انسانی بنیادی فطرت میں شامل ہے لیکن ساتھ میں اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اچھائی برائی کی تمیز دی۔ معاشرے میں جب کسی مسئلے پر بات کرنا چھوڑ دی جائے تو اس کا کوئی حل نہیں نکلتا بلکہ قصور اور چونیان جیسے واقعات جنم لیتے رہتے ہیں ۔ اس گفتگو کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
پہلی اور بنیادی بات ہماری اپنے مذہب سے دوری ہے کیوں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ اور اسلام میں یہ ہے کہ جب بچے بالغ اور عاقل ہو جائیں تو جتنی جلدی ہو ان کی شادی کرو کیونکہ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ بے شک نفس عمارہ انسان کو برائی ہی سیکھاتا ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالی نے عقل سلیم عطا کی ہے صرف اولاد کی بنیادی ضروریات زندگی پوری کرنا ہی کافی نہیں بلکہ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ جس مدرسے یا اسکول میں آپ کا بچہ جاتا ہے ادھر کا ماحول کیسا ہے۔ اس کے دوست کیسے ہیں ؟
تیسری اہم بات بیٹوں کی باپ کے ساتھ اور بیٹیوں کی ماں کے ساتھ مکمل فرینکنیس ہونی چاہیے اور نہایت دوستانہ ماحول ہونا چاہیے روزانہ کی بنیاد پر بچوں کو پوچھا اور بتایا جائے، ان کی سرگرمیوں پر کڑی نظر بھی رکھی جائے ساتھ میں ان کی عزت نفس کا خیال بھی رکھا جائے ۔
چوتھی اہم بات والدین اپنے سکول جانے والے بچوں کو اٹھنے بیٹھنے بات کرنے اور سب کے ساتھ فاصلہ رکھنے Good Touches Bad Touches کا بتائیں ۔ بچوں کے اندر اعتماد پیدا کریں اور ان کو بتائیں کے والدین سے زیادہ کوئی دوست نہیں ہوتا خاص کر 18 سال کی عمر ہونے تک۔
اہم بات کہ میٹرک سے پہلے اسکولوں میں اور والدین کی طرف سے فون رکھنے پر مکمل پابندی ہونی چاہئے اور میٹرک میں جانے کے بعد سادہ فون لیکر دیا جائے۔ ساتھ میں ان کو ہر چیز کے فائدے اور نقصان دونوں بتائے جائین۔
گھر اسکول یا کسی بھی جگہ پر بچوں کے لئے مخلوط نظام یا ایسا موقع نہ ہو جہان آپ کو اپنے بچوں کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑے ۔ اب تک کے جو واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ان میں بچوں کے قریبی رشتہ دار کزن یا ماں باپ کے کزن ملوث نکلے یا ہمسائے یا محلے دار۔
آجکل کے اسکول اساتذہ کی بھی مکمل تربیت کی ضرورت ہے اس مقصد کے لیے ہر اسکول میں کم ازکم ایک ماہر نفسیات تعینات کیا جانا چاہیے حکومت کی طرف سے۔
معاشرے میں آگاہی کی ضرورت ہے کہ اپنے اردگرد کے ماحول پر کڑی نظر بھی رکھی جائے ایسی صورتحال میں ہلکا سا بھی گمان ہو پولیس کو اطلاع دی جائے ۔
بچوں کے ساتھ زیادتی کےکیسز میں سزائے موت سے کم سزا نہیں ہونی چاہیے اور عدالتی نظام میں بھی اس بارے ایک پالیسی بننی چاہیئے اور تفتیش بھی کم ازکم انسپکٹر لیول کا آفیسر کرے۔
بحیثیت قوم سب کی اخلاقی تربیت کی اشد ضرورت ہے ۔ جب معاشرے میں بے چینی عروج پر ہوگی تو اس میں ایسے واقعات جنم لیتے ہیں اس کے پیچھے بہت سارے عوامل کارفرما ہوتے ہیں اس پر باقاعدہ آگاہی اور ایک قومی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے ۔ سب سے اہم بات ہے کہ صحت مندانہ اقدامات پر زور دیا جائے کھیلوں کو فروغ دیا جائے جس میں جسمانی اور ذہنی مشقت ہو۔ قومی سطح پر شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ نوجوانوں کے فرصت کے اوقات کم ہونے چاہیں۔ ان کے لیے دیگر سرگرمیوں کو فروغ دینا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ورنہ یہ بیمار معاشرہ دن بدن مزید بیمار ہوتا چلا جائے گا۔