جانتا ہوں کہ وہ نہ آئیں گے ۔۔۔۔
پھر بھی مصروف انتظار ہے دل
کچھ نظمیں ایسی کیوں چھوڑ گئے ہیں آپ جیسے کسی برفیلے پہاڑ پر چڑھنے والا کوہ پیما ایک ان پلانڈ موت مرجاتا ہے ۔ حالانکہ اسکو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ یہ پہاڑ سر کر لے گا لیکن موت، زندگی کے سائے میں چپ چاپ چلتی ہوئی ایک الگ ہی افسانہ لکھ رہی ہوتی ہے ۔۔ اور اس کوہ پیما کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں ۔۔ اور لوگ اندازے ہی لگاتے رہ جاتے ہیں ۔۔ کہ شاید یوں ہوا ہوگا ۔۔ شاید ایسے ۔۔ شاید ویسے۔۔
تو ہیں کچھ نظمیں ایسی ۔۔ جیسے ‘ تنہائی’ جنہیں پڑھ کر لگتا ہے کہ ان کے لبوں پر ایک سنجیدہ سی مسکراہٹ ہے جو سگریٹ کے دھویں میں گُھلتی رہتی ہے ۔۔۔ اور پھر لکڑی کے دیمک زدہ ایش ٹرے میں سمے کی راکھ جھاڑتے ہوئے کبھی کبھی ابرو اٹھا کر سوال کرتی ہے ۔۔۔ بتاؤ ۔۔ بتاؤ آگے کیا ہوا؟
اور ‘ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ‘ جیسے شاہکار ہیں جو بلند و بانگ قہقہے لگاتے ہوئے ہمیں للکارتے ہیں کہ لکھ سکتے ہو ۔۔ اپنی پوری کوشششوں کے باوجود ایسا؟
ایک لفظ ۔۔ ایک سطر ۔۔۔ چند مصرعے ۔۔
او مائی ڈیئر ہارٹ ۔۔۔ نو وی کین ناٹ فیض صاحب!
‘ آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بھولے تو یوں کہ جیسے کبھی آشنا نہ تھے ‘
مجھے یہ شعر بہت پسند ہے آپکا ۔ سادہ سا مگر مکمل!
لیمپ کی زرد روشنی میں جب میرے خیالات بوجھل اور غمگین ہوجاتے ہیں اور کاغذ بھی میرا ہمراز بننے سے انکاری ہوجاتا ہے تب میں لکھنا روک دیتی ہوں اور یہ شعر دعائے نیم شب کی طرح میرے اندر اترتا جاتا ہے ۔
میں اکثر سوچتی ہوں فیض کہ جب بہت سے سال گزر جائیں گے اور شاید میں کسی بھول بھلیوں جیسے شہر میں اس سے کبھی دوبارہ مل پائی تو اس کے ہاتھ تھام کر یہ شعر ضرور سناؤں گی ۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ اپنی مغرور ناک سکیڑے گا ۔۔ اس کے لبوں پر ایک الجھن بھری مسکراہٹ ہوگی ۔۔ اور آیتوں جیسے انگلیاں میرے کافر ہاتھوں کی حدت سے پیچھا چھڑا کر بھاگ جانا چاہیں گی ۔۔۔
تب بھی!
تب بھی ۔۔ جیسے اب ..
اور میں اسے جانے دوں گی ۔۔
جیسے اب !
دشتِ تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے تیرے ہونٹوں کے سراب ۔۔
آپ شاعری کے یزداں ہیں ۔ نہ ہوتے تو کیسے لکھ پاتے یہ ۔۔
دسمبر کی ایک سرد روپہلی شام تھی جب سال اپنی انگلیاں چٹخاتا۔۔اینٹھتا۔۔ اپنا سامان سمیٹ رہا تھا کہ اگلا سال دروازے پر دھیرے دھیرے دستک دیتا تھا۔۔ گاڑیوں کی ایک لمبی قطار کے انت پر میرے منجمد ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں سے دہکاتا وہ چل رہا تھا ۔۔ بڑبڑاتا ۔۔ الجھتا
‘جب اتنی سردی لگتی ہے تو کیوں نکلی تھی ہاں؟ ‘
موٹریں برابر بھاگ رہی تھیں اور سڑک کے کنارے بنے ریستورانوں میں سالِ نو کے جشن منانے کو بھیڑ بڑھ رہی تھی ۔ موسیقی کی گونج اور قہقہوں کے بیچ ابھرتی ڈوبتی آوازیں جیسے دریا کی لہریں ۔۔
روش روش ہے وہی انتظار کا موسم
نہیں ہے کوئی بھی موسم، بہار کا موسم
یہ دل کے داغ تو دُکھتے تھے یوں بھی پر کم کم
کچھ اب کے اور ہے ہجرانِ یار کا موسم
یہ مصرعے ۔۔ ایسا لگتا ہے کہ وائلن پر کوئی مدھم دھن بجتی ہو۔۔ سرمئی بادلوں سے گزرتی ۔۔ چاند کی کرنیں چیرتی ۔۔ وحی کی طرح اترتے ہیں چٹخے ہوئے دل پر یہ مصرعے ۔۔
اور یہاں سے بہت دور ۔۔ بہت دور ایک آسمان ہے فیض جو مجھ پر مہربان نہیں ہے ۔۔ اس کی آنکھوں کے سامنے میری دعائیں ٹوٹتی رہتی ہیں پر وہ ساکن ہے ۔۔ اس کے دل کی جگہ شاید کسی بے رحم فیصلے کی صلیب گڑی ہے ۔۔
پر میں ہاری نہیں ہوں ۔۔ سرد لمحوں میں جب خواب آنکھیں موندے کسی اور خواب میں گُم ہوگا ۔۔ میں اسی بے مہر آسمان کی چادر پر یہ نظم کاڑھ آؤں گی
اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں نظر آیا کہیں
ایک پل آخری لمحہ تیری دلداری کا
درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا
ہم نے چاہا بھی، مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا