
بغاوت ایک ایسا لفظ ہے جو تاریخ میں ہمیشہ ایک سنگ میل ثابت ہوا ہے۔ یہ کبھی آزادی کی جستجو کی علامت بنتا ہے تو کبھی ریاستی قوانین کی خلاف ورزی۔ بغاوت کا مفہوم حالات اور نیت پر منحصر ہوتا ہے—کبھی یہ ظلم کے خلاف ایک بلند آواز ہوتی ہے، اور کبھی انتشار و تخریب کا دوسرا نام۔
دنیا کی تاریخ بغاوتوں سے بھری پڑی ہے۔ فرانس کا انقلاب، برصغیر کی آزادی کی جدوجہد، اور عرب بہار، سب اسی کی مختلف شکلیں ہیں۔ جب حکمران عوام کی آواز دبانے لگیں، انصاف کا قتل عام ہو، اور بنیادی حقوق سلب کر لیے جائیں، تو بغاوت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر بغاوت جائز ہوتی ہے؟
بغاوت جب ایک نظریے پر مبنی ہو، جب اس کا مقصد انصاف اور حق کی بحالی ہو، تو یہ مزاحمت کہلاتی ہے۔ لیکن اگر یہ ذاتی مفادات، طاقت کی ہوس، اور ریاستی نظم کو برباد کرنے کے لیے ہو، تو یہ محض انتشار اور غداری بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ بغاوت کرنے والوں کو کبھی ہیرو اور کبھی غدار کے روپ میں پیش کرتی ہے۔
اصل فرق نیت اور طریقہ کار کا ہے۔ ایک منظم، نظریاتی اور عوامی حمایت یافتہ بغاوت انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتی ہے، جبکہ ایک خود غرض اور غیر منظم بغاوت قوموں کو خانہ جنگی اور تباہی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ یہی وہ باریک لکیر ہے جو ایک باغی کو ہیرو یا ولن بناتی ہے۔
آج کے دور میں بھی، جب انصاف کمزور اور طاقتور مزید مضبوط ہو رہا ہے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بغاوت کب حق بنتی ہے اور کب جرم۔ اگر بغاوت ظلم کے خلاف ہے، تو یہ حق ہے۔ اگر یہ صرف اقتدار کی جنگ ہے، تو یہ ایک اور تباہی کا آغاز ہے۔