fbpx
بلاگ

بدھا کی ٹوٹی ہوئی ناک،  ہماری کٹی ناک/ فواد رضا

 

تیرہ سال پرانی یہ تصویر ٹیکسلا میں واقعہ قدیم دور کی یونی ورسٹی کی ہے جہاں بدھ مت کی تعلیم دی جاتی تھی۔

پہاڑ کے اوپر بنی اس قدیم درس گاہ کو ’جولیاں‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس درس گاہ کا دور دوسری صدی عیسوی بتایا جاتا ہے یعنی کہ کشانوں کا دور۔

 

یہ وہ دور ہے جب اس خطے میں گندھارا نامی آرٹ اپنے عروج پر تھا یہ آرٹ افغانستان سے لے کر چین تک اپنے اثرات رکھتا تھا اوراس دور کے ماہرین کے ہاتھ کی صفائی آج بھی جولیاں میں دیکھی جاسکتی ہے، یا پھر کراچی اور لاہور کے میوزیم کا رخ کیا جاسکتا ہے۔

 

یہ درس گاہ دنیا کی قدیم ترین جامعات میں سے ایک ہے لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہاں کی مقامی آبادی نے وہاں موجود مہاتما کے مجسموں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے، ان میں سے اکثر کی ناک ٹوٹی ہوئی تھی۔

 

اگر میں اور آپ بدھ مت اور اس کے نظریات کو تسلیم نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ایسے رویے اختیار کریں، یہاں میں یہ بھی بتادوں کہ یہ جگہ گوتم بدھ کے ماننے والوں کے لیے ایسی ہی اہمیت رکھتی ہے جیسے مسلمانوں کے لیے بغداد،  نجف یا جامعہ ازہر اور اکثر چین ‘ جاپان اور دیگر ممالک سے زائرین یہاں آتے ہیں۔

 

جب وہ اپنے ان عظیم آثار کو اس حالت میں دیکھتے ہوں گے تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہوگی اس کا تصور کرنے کے لیے محض ایک لحضہ سوچیے کہ ہلاکو خان کا لشکر بغداد کو اپنے قدموں تلے روند رہا ہے۔

وہ مجسمے ہمارے لیے بیکار سہی لیکن ان کے لیے بہت کچھ ہیں اور بہت محترم ہیں، جب آپ ان کی ناک توڑدیں گے تو اقوامِ عالم میں اپنی ناک کیسے سلامت رکھ پائیں گے ۔۔ ذرا سوچیے

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے